نہیں ہے اور یہ نظریہ محض اسی باطل عقیدہ سے پیدا ہوا ہے کہ جب تک صحیح حدیث متواتر نہ ہو اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا اسی لیے ان لوگوں نے بہت سی احادیث کا یہ کہہ کر انکار کردیا ہے کہ یہ تواتر کے مقام کو نہیں پہنچی ہیں۔
مثال کے طور پر آپ لوگ امام بخاری کی اس روایت کو جانتے ہوں گے جس کو انہوںـ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا۔ آپ نے فرمایا:
((اما إنہما لیعذبا ن وما یعذ بان فی کبیر…الحدیث۔))
’’بے شک ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے حالانکہ انھیں کسی بڑے معاملے کے بارے میں عذاب نہیں ہورہا ہے (ان کا گناہ یہ تھا) ان میں سے ایک چغل خوری کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔‘‘
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کھجور کے درخت کی ایک ڈالی لائی جائے۔ جب ڈالی لائی گئی تو آپ نے اس کو دو حصہ کردیا اور ہر ایک کے سر کے پاس ایک حصہ کو گاڑ دیا۔ لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا: ((لعل اللّٰہ عزوجل یخفف عنہما مادا مارطبین۔)) [1] جب یہ دو نوں تازہ اور ہری رہیں اس وقت تک ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں کے عذاب میں تخفیف پیدا کردے۔‘‘ یہ حدیث صحیح بخاری میں موجود ہے۔
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ یہ دونوں مسلمان ہیں۔ اس کے باوجود دونوں کو عذاب ہورہا ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے حق میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں سے عذاب کو کم کردے جب تک یہ دونوں شاخیں ہری رہیں
|