Maktaba Wahhabi

99 - 208
علانیہ نصیحت نہ کرے بلکہ تنہائی میں لے جا کر یہ فریضہ ادا کرے، اس طرح اگر وہ نصیحت پر عمل کرے تو فَبِہَا ورنہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا۔‘‘ الغرض شیخ رحمہ اللہ علانیہ نصیحت کرنے کو سلف صالحینِ امت کے منہج کے منافی خیال کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ حکّام کے عیوب و نقائص کو سرِ عام منبروں پر بیان کرنا اور ان کی لوگوں میں تشہیر کرنا مفید ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ نئے نئے مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے لہٰذا خودان سے پردے میں بات کریں یا لکھ کر بھیجیں یا کسی سے رابطہ کریں جو یہ کام کرسکتا ہو البتہ کسی کا نام لیے بغیر ان میں پائی جانے والی بُرائی کا ردّ کرنا ممکن ہے، حاکم و غیر حاکم کا نام لے کر یہ باتیں کرنا مفید نہیں بلکہ مضر ہے۔ 5 موصوف حکّام و امراء کے لیے اللہ تعالیٰ سے توفیقِ خیر و برّ کی بکثرت دعاء کرنا ضروری خیال کرتے تھے اور اپنے محاضرات و دروس میں خود بھی اس پر کار بند تھے، اس سلسلہ میں ان کے عمل کی بنیاد دو عظیم ائمۂ دین امام فضیل بن عیاض اور امام احمد بن حنبل کا یہ معروف مقولہ تھا : ’’لَوْ کَانَتْ لِیْ دَعْوَۃٌ مُجَابَۃٌ لَصَرَفْتُہَا لِلسُّلْطَانِ‘‘ ’’ اگر مجھے پتہ چل سکے کہ میری کوئی دعاء مقبول ہونے والی ہے تو وہ دعا میں سلطان کے لیے خاص کر دوں۔‘‘ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تو ارشاد ہے : (( خِیَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُصَلُّوْنَ لَہُمْ وَ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ)) ’’تمہارے بہترین حکّام و امراء وہ ہیں کہ جن کے لیے تم دعائیں کرو اور وہ تمہارے لیے دعائیں مانگیں۔‘‘ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کا حکّام و امراء کے سلسلے میں یہی منہج تھا اور اس سلسلہ میں
Flag Counter