Maktaba Wahhabi

66 - 208
کثرت کا یہ عالَم ہوگیا کہ ان کی رہائش کا مسئلہ بن گیا حتیٰ کہ شیخ موصوف نے سلطان عبد العزیز آل سعود رحمہ اللہ سے مطالبہ کیا کہ طلبۂ علم کے لیے رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں،اس پر سلطان نے فوراً حکم جاری کردیا کہ الجامع الکبیر کے اردگرد طلبہ کے لیے کمرے بنائے جائیں جنھیں’’الرباط‘‘ کا نام دیا گیا مگر آہستہ آہستہ یہ سب کمرے بھی ناکافی ہوگئے تو کئی مکانات کرائے پر لے کر انہیں ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا۔ شیخ کے مطالبہ پر سلطان نے طالب علموں کے لیے ماہانہ وظیفہ یا مشاہرہ بھی مقرر کردیا تاکہ ضروریاتِ زندگی پوری کرنے میں آسانی رہے۔ شیخ راشد خنینی، جو شیخ کے شاگرد اور دار القضاء کے کاتب بھی تھے، وہ شیخ کی طرف سے یہ مشاہرہ طلبہ میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ اس طرح کئی طلبہ نے تو الدلم میں ہی شادی بھی کرلی اور بال بچوں والے ہوگئے، شیخ موصوف اپنی طرف سے ممتاز طلبہ کو عبائیں (قبائیں) بھی عطا کیا کرتے تھے جنھیں عربی میں ’’بِشت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ممدوح کے تعلیم و تدریس کے پانچ حلقے تھے: 1 نمازِ فجر کے بعد جس میں توحید، فقہ، حدیث، نحو اور تفسیر کا درس ہوا کرتا تھا۔ 2 ظہر کے بعد۔ 3 عصر کے بعد۔ 4 مغرب کے بعد جو علم الفرائض (احکام المواریث) کے لیے خاص تھا۔ 5 نمازِ عشاء کے بعد ہوتا تھا جس میں تفسیر ابن کثیر کی تعلیم دی جاتی تھی۔ شیخ عبد الرحمن بن عبد العزیز الجلال، جو کہ حافظِ قرآن اور خوش الحان تھے اور آج کل ہیئۃ الأمر بالمعروف و النہي عن المنکر الدلم کے رئیس ہیں،وہ تفسیر ابن کثیر پڑھتے اور شیخ اس کی تشریح بیان کیا کرتے تھے۔[1]
Flag Counter