Maktaba Wahhabi

167 - 208
کم و بیش دو ملین (۲۰ لاکھ) لوگ تھے جنھیں سینکڑوں فوجی دستے کنٹرول کر رہے تھے، حرم شریف کے دروازے سے گاڑی رینگنے لگی، مسجدِ حرام سے لیکر تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلہ تک لوگوں کا یہی عالَم تھا، پھر کچھ ازدحام کم ہونا شروع ہوا اور میّت والی گاڑی نے مقبرۃ العدل کی طرف کچھ چلنا شروع کیا، جو کہ مسجد حرام سے چار یا پانچ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے، لوگ قبرستان (مقبرۃ العدل) کی طرف اس انداز سے بڑھے چلے آرہے تھے کہ میں نے مناسکِ حج کے لیے مشاعرِ مقدسہ منیٰ و عرفات اور مزدلفہ کی طرف جانے والوں کے علاوہ کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا۔ میّت والی گاڑی میں میرے علاوہ شیخ رحمہ اللہ کا صاحبزادہ شیخ احمد بن باز آنسوؤں میں نہایا ہوا تھا۔ شیخ کے مرافقِ خاص اور ان کی ذاتی لائبرری کے انچارج شیخ صلاح عثمان سوڈانی تھے، جن کی حالت کا اندازہ اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ طائف میں جب انھوں نے شیخ کی وفات کی خبر سنی تو وہ غش کھاکر گر گئے حتیٰ کہ انھیں طائف کے الہدا ہسپتال کے خصوصی نگہداشت کے شعبہ میں داخل کروانا پڑا۔ اب بھی ان کی عجیب حالت تھی۔ جنازے والی گاڑی کا ڈرائیور محمد سیلانی تھا جو کہ ملازم تھا نہ مرافق، نہ تنخواہ نہ وظیفہ لیکن مکہ و طائف میں شیخ کا اور اس کا اتنا ساتھ کہ شاید و باید۔ قبرستان پہنچنے پر گاڑی کا دروازہ کھولنے والے صوبۂ مکہ مکرمہ کے گورنر پرنس ماجد بن عبد العزیز آل سعود تھے اور ان کی معیّت میں نائب گورنر پرنس سعود بن عبد المحسن اور پرنس متعب بن عبد العزیز آل سعود بھی تھے۔ تدفین کے بعد سماحۃ الشیخ کے صاحبزادے پرنس ماجد کے ساتھ شاہی محل میں چلے گئے جہاں کنگ فہد نے انھیں دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا ہوا تھا۔ شاہ فہدنے شیخ کے صاحبزادوں کا اپنے محل میں استقبال کیا اور ان سے امتِ اسلامیہ کے عظیم سپوت اور ان کے عظیم والد کی وفات پر تعزیت کی۔
Flag Counter