Maktaba Wahhabi

159 - 208
عرصہ کے لیے جیسا کہ قرآن کی آیت: {وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا} [الأنفال: ۶۱] ’’اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی صلح کی طرف جھک جائیں۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشرکینِ اہلِ مکہ سے دس سال کے لیے جنگ نہ کرنے کا معاہدۂ صلح کرنے اور کئی قبائل سے مطلق معاہدوں سے پتہ چلتا ہے۔ تفصیلات علامہ ابن القیّم کی کتاب ’’أحکام أہلِ الذمۃ‘‘ ان کے شیخ امام ابن تیمیہ اور دیگر اہل علم کی کتب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ 2 مسلمان حکّام و امراء کے خلاف بغاوت کا انداز اپناکر ملک میں فتنہ و فساد اور خوف وہراس پیدا کرنا جائز نہیں۔اگر کہیں کچھ منکرات کا ظہور ہو تو اولیاءِ امور کو حکمت کے ساتھ وعظ و نصیحت کرنا، خیر کے کاموں میں ان کا تعاون کرنا اور ان کے لیے دعاءِ خیر کرنا چاہیے تاکہ شر کی جڑیں کٹیں اور خیر عام ہو۔ 3 یہودو ہنود وغیرہ سے معاہدۂ صلح کا معنی یہ نہیں کہ معاہدۂ صلح کے بعد مسلمانوں پر لازم ہو جائے گا کہ وہ ان کے ساتھ دلی محبت ومودّت اور موالات کا رشتہ بھی قائم کریں،بلکہ یہ معاہدہ تو طرفین کے ما بین صرف امن و امان اور معاملاتِ تجارت و سفارت وغیرہ کے لیے ہوگا۔ 4 غاصب کے ساتھ معاہدۂ صلح کا معنی یہ ہرگزنہیں ہے کہ جو اس نے غصب کیا ہے وہ اس کی مستقل ملکیّت بن جائے گا، یہ تو محض ایک محدود عرصہ کے لیے ملکیّت شمار ہوگا اور جیسے ہی معاہدہ ختم ہوا اور مسلمانوں کو اتنی قوّت حاصل ہوئی کہ وہ غاصب سے اپنی مغصوب زمین واپس لے سکیں وہ واپس لے لیں گے۔ یہود و نصاریٰ اور مجوس کے سلسلہ میں یہی حکم ہے۔ 5 تحریکِ آزادیٔ فلسطین اور یہودیوں کے ما بین صلح سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا
Flag Counter