Maktaba Wahhabi

121 - 208
سوال کسی وجہ سے تین اشخاص نے باری باری پوچھا کہ سجدۂ تلاوت کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ تو آپ نے تینوں مرتبہ ہی کہا : یہ سنتِ مؤکّدہ ہے۔ آپ کے شاگردوں میں سے ایک صاحب صنیدان بن عبد الرحمن الیامی نے آپ کے دروس میں سے نمازِ مغرب کے بعد کے ایک درس میں سوالوں کی تعداد کا اندازہ کرنا شروع کیا اور پچاس (۵۰) سے زائد سوال گننے کے بعد گننے والا تھک کر چھوڑ بیٹھا جبکہ سوال کرنے والے ابھی کررہے تھے اور شیخ برابر پر سکون انداز سے جواب دے رہے تھے۔ اسی صبر و حوصلہ اور وسعتِ ظرفی کے سلسلہ میں شیخ عمر احمد با فضل کا بیان ہے کہ میں ایک انتہائی مشکل سے دوچار اور سخت پریشان تھا۔ شیخ رحمہ اللہ مسجد سے درس کے بعد باہر نکلے اور درس کے اختتام سے لیکر آپ کے گاڑی میں سوار ہوجانے حتیٰ کہ گاڑی کے چل نکلنے تک لوگ مسلسل اپنے مسائل و سوالات پیش کرتے رہا کرتے تھے اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔ جب گاڑی حرکت کرنے لگی تو میں نے قریب ہوکر عرض کیا : میں نے ایک ضروری بات کرنی ہے کیا میں آپ کے ساتھ آجاؤں ؟کیا مجھے موقع ملے گا ؟ شیخ نے فرمایا: ہاں موقع ملے گا اور وہ بھی ابھی ہی۔ گاڑی رکوائی اور مجھے اپنے پاس گاڑی میں بٹھا لیا اور اسی وقت میری بات سن کر میرے استفسار کا جواب عنایت فرمایا اور میں خوشی خوشی گاڑی سے اتر آیا، میرا خیال تھا کہ کہیں گے : کل دفتر میں آکر مل لینا یا کہیں گے کہ ہمارے پیچھے پیچھے آجاؤ۔ جانے کے لیے روانہ ہو رہا ہوں لیکن اسی وقت گاڑی روک کر جواب دیں گے میں نے یہ سوچا بھی نہ تھا۔ یہ توفیق بھی شیخ کے سوا کسی کسی کو ہی نصیب ہوگی۔[1]
Flag Counter