Maktaba Wahhabi

208 - 256
نبیوں اور فرشتوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کمالات پائے ۔ ‘‘ (یہیں سے غالباً بعض غالی شعراء نے یہ نکتہ نکالا ہے ) شاہِ مدینہ ، یثرب کے والی سارے نبی تیرے در کے سوالی اس قسم کے اشعار جن میں قادر مطلق رب تعالیٰ کے تمام اختیارات رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیے اور آپ کو تفویض کیے گئے ہیں، نہ صرف انتہائی غلو کی مثال ہیں بلکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور فرمانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اور سراسر منافی بھی ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ مجھے حد سے نہ بڑھاؤ جیسا کہ عیسائیوں نے مسیح علیہ السلام کے ساتھ کیا ۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔‘‘[1] مگر افسوس کا مقام ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واضح ارشاد کو نظر انداز کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعینہٖ رب بنا دیا گیاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سمجھنے اور کہنے کی کافرانہ لغزش کے ساتھ ہندو مذہب کے زیر اثر جو دوسرا عنصر مسلمانوں میں گھس آیا، وہ آپ کی سیرت و سوانح کے بیان میں بے سروپا کہانیاں ہیں جن میں محیر العقول، مافوق الفطرت، مبالغہ آمیز واقعات کی بھر مار سننے سنانے کا رواج عام ہے۔ ایسے واقعات دیوتاؤں کی طاقت و عظمت سے مرعوب ہو کر سنائے جاتے تھے ۔ ہندو اصنام پرستی اور دیو مالائی نظریات کا نتیجہ ہے کہ سیرت پاک میں نہ صرف ایسی موضوع (من گھڑت) روایات جگہ پا گئی ہیں بلکہ ان کی تکرار کے سبب انھیں عقیدے کا درجہ حاصل ہو گیا ہے اور نعتیہ شاعری کا بیشتر ذخیرہ انھی روایات پر مبنی اور منحصر ہے جیسے:
Flag Counter