Maktaba Wahhabi

188 - 256
ان نعت گو شعراء کو اپنے عاشق مصطفی ہونے پہ اس قدر غرہ ہے کہ وہ خود کو اعمال صالحہ کا مکلف نہیں سمجھتے بلکہ اس نام نہاد عشق مصطفی کو ہی نجاتِ اُخروی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اعمال سے فرار اور اعراض کی روایت کو یوں بیان کرتے ہیں: مدارِ کار ہے حُبِّ رَسول پہ ورنہ عمل ہزار ہوں اچھے ثواب کیا ہوگا جو آپ کے ہیں غلاموں میں اے شہِ کونین لحد میں ان سے سوال و جواب کیا ہوگا (جلیل مانکپوری) ہمیں سیلاب کا ڈر کیا ہو جب وہ ناخدا ٹھہرے ہمیں کیا فکر جب ایسے شہنشاہ کے گدا ٹھہرے (نیاز فتح پوری) اہلِ حساب پوچھتے ہو کیا قلَقؔ کا حال ہاں ’’رِند‘‘ ہے مگر ہے ثناگوئے مصطفی (مولا بخش قلقؔ) اعمال سے اعراض کرنے والے شعراء کو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا ہی عُجب نہیں بلکہ وہ ’’شرک فی شفاعت الرسول‘‘کے بھی مرتکب ہوئے ہیں اورانھیں امت کے پیروں، فقیروں کی سفارش کا بھی سہارا ہے، بقول آغا شورشؔ کاشمیری: تمام عمر ’’مدینے میں سونے والے‘‘کو کہاں کہاں سے پکارا کہاں کہاں ٹھہرے
Flag Counter