Maktaba Wahhabi

175 - 256
معشوقوں کے لیے مروّج ہے ۔ بھلا نعت کا زلف و گیسو اور خال و خط سے کیا تعلق ! ایسی شاعری نعتیہ ادب و احترام کے سراسر منافی ہی نہیں، ناقابل معافی بھی ہے ۔ بقول اے ڈی نسیم: یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاعروں نے عام محبوب کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام رکھ دیا ہے اور زلف و رخسار اور کاکل وگیسو کی تعریف شروع کر دی ہے ۔ اس انداز کی نعتوں میں ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جنھیں اگر نعت کے عنوان سے پیش نہ کیا جائے تو ان پر غزل کا گمان ہوتا ہے ۔ گویا نعت پر غزل گوئی کا رنگ غالب ہے ، مثلاً: امیر خسرو کے یہ اشعار: نمی دانم چہ منزل بود شب جائیکہ من بودم بہر سو رقصِ بسمل بود شب جائیکہ من بودم خدا خود میرِ مجلس بود اندر لامکاں خسروؔ محمد شمعِ محفل بود شب جائیکہ من بودم اور پیر مہر علی شاہ کا یہ کلام: مکھ چند بدر شعشانی اے متھے چمکے لاٹ نورانی اے کالی زلف تے اکھ مستانی اے مخمور اکھیں ہن مدھ بھریاں اس قسم کے اشعار کی مجموعی فضا غزل نما ہے جس میں غزل کے معروف علائم و رموز اور غزل گوئی کی مانوس کیفیت رچی بسی نظر آتی ہے جن میں نعت کا مفہوم اور ماحول کم ہی نظر آتا ہے۔ سید مودودی کہتے ہیں: ’’عام نعت گو شعراء جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معشوق نازنین تصور کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپا کی تفصیل بیان کرتے ہیں ، یہ اندازِ کلام سو ئِ ادب
Flag Counter