Maktaba Wahhabi

165 - 256
حکم دیا گیا۔ آپ نے کوہِ فاران پر چڑھ کر سب سے پہلے اپنے قبیلہ قریش کو پکارا۔ لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے پہلے ان سے اپنے صادق و امین ہونے کا برملا اعتراف کرایا، پھر توحید الٰہی کا پیغام پہنچاتے ہوئے فرمایا: ’قُولُوا لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوا‘ ’’کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کامیاب ہوجاؤ گے۔‘‘[1] لوگوں کے لیے آبائی مذہب اور شرکیہ رسوم ترک کرنا شاق تھا، اس لیے وہ اس پیغام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ سوائے عوامی طبقوں سے تعلق رکھنے والے چند افراد کے کسی نے اسلام قبول نہ کیا۔ قریش کی مزاحمت دن بدن بڑھنے لگی۔ اہل مکہ سے مایوس ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے۔ وہ لوگ سخت بدسلوکی بلکہ بدتمیزی سے پیش آئے۔ مجبورًا آپ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی جہاں مشرکین وکفار کے علاوہ یہود اور منافقین سے بھی معاملہ پیش آیا، چنانچہ جنگِ بدر سے تبوک تک کے ایک طویل سلسلۂ غزوات کا سامنا کرنا پڑا، تاہم مدینہ میں اسلام کو اپنا ایک وطن، سلطنت و حکومت اور خالص اسلامی معاشرہ میسر آگیا۔ 6ھ میں حدیبیہ کا صلح نامہ مرتب ہوا جس میں کفارِ مکہ نے دس سالہ معاہدہِ صلح کیا۔ 8ھ میں کفارِ مکہ کی عہد شکنی کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کا قصد کیا اور خون خرابے کے بغیر مکہ فتح کر لیا۔ 9ھ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوا لاکھ مسلمانوں سمیت اپنی زندگی کا پہلا اور آخری حج ادا کیا۔ اس موقع پر میدان عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع کے بعد دین اسلام کی تکمیل کی بشارت ملی اور ارشاد باری تعالیٰ ہوا:
Flag Counter