پیش لفظ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم اﷲسبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت و اطاعت کے لیے پیدا کیا ہے اور اسے انہی احکام کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جو اﷲ تبارک و تعالیٰ اوراس کے رسول حضرت محمد مصطفی،احمد مجتبیٰ ا نے ارشاد فرمائے ہیں۔اور ان باتوں سے اجتناب کی تاکید کی ہے جن سے اﷲ ذوالجلال والاکرام اوراس کے رسول ا نے منع فرمایا ہے۔ بلکہ ہر اس قول و فعل سے بھی بچنے کا حکم د یا ہے جو زندگی کے اصل مقصد سے غافل کر دینے والا ہو،تاکہ بندہ مومن کی زندگی بامقصد زندگی ہو،بے مقصد،لایعنی اور فضول زندگی نہ ہو۔ یہ بات تو نصف النہار کی طرح واضح ہے کہ موسیقی اور آلات موسیقی کو اختیار کرنے،اسے مقصد حیات بنانے کا حکم نہ اﷲ تعالیٰ نے دیا نہ ہی اس کے رسول انے،نہ رسول اﷲ ا نے اسے اپنایا نہ ہی صحابہ کرام سے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ایک کھلی کتاب ہے مگر کہیں یہ ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے محفل موسیقی سجائی ہو اور اس کے فن کاروں کی تحسین فرمائی ہو۔ ڈھول،طبلہ،سارنگی،ستار،بربط،طنبور،مزمار وغیرہ سے جشن موسیقی منایا ہو۔ جو اسلام لغو اور بے مقصد کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا اس میں موسیقی کے جواز کا تصور بجائے خود انتہائی لغو بات ہے۔ مگر اس کے برعکس بعض حضرات اسلام میں اس کے جواز کی راہیں تلاش کرنے اور موسیقی کو مشرف بہ اسلام کرنے کی سعی نامشکور کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں ہی ایک ناکام کوشش جناب جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے پروردہ حضرات نے کی ہے۔ چنانچہ اپنے ماہنامہ اشراق مارچ2004ء میں ’’اسلام اور موسیقی‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک طویل مضمون شائع ہوا۔ جس کا جواب مسلک اہل حدیث کے مشہور ترجمان ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں قسط وار طبع ہوا۔ قارئین کرام نے اسے پسند فرمایا اور مستقل طور پر کتابی شکل میں شائع کرنے کا مطالبہ کیا۔ ’’الاعتصام‘‘ کے علاوہ یہی مضمون ’’ماہنامہ خیر الناس‘‘ لاہور |