Maktaba Wahhabi

54 - 236
لگا نہیں کھا سکتے تھے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ تم اپنی ہوا پرستی کی وجہ سے اگر کھلے طور پر نہ کہہ سکے تو بزبان حال کہو گے کہ احمد بن حنبل کیا چیز ہے؟ ابن مدینی کون ہے؟ ابو داؤد اور ابو زرعہ کی کیا حقیقت ہے؟ یہ صرف محدث ہیں انہیں فقہ کا پتہ ہی نہیں نہ وہ اصول سے واقف ہیں نہ انہیں معلوم ہے کہ رائے کیا چیز ہے۔ نہ وہ معانی اور بیان کے وقائع کو سمجھتے تھے۔ نہ وہ منطق کی باریکیوں کو جانتے تھے۔ نہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دلائل دے سکتے تھے۔ نہ فقہائے ملت میں ان کا کہیں تذکرہ پایا جاتا ہے۔ یا تو حلم سے چپ رہو یا علم سے بات کرو۔ مفید علم وہی ہے جو ان حضرات سے منقول ہے۔ تمہارے فقیہ تو ہمارے آج کل کے محدثین کی طرح ہیں۔ نہ ہم کچھ چیز ہیں۔ نہ آپ ہی کچھ جانتے ہیں۔ ارباب فضیلت کی قدر اہل فضل ہی جانتے ہیں۔ جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرتا ہے۔ جو کبر وغرور اور شرپسندی سے گفتگو کرتا ہے۔ اس کا معاملہ خدا پر چھوڑ دو۔ اس کا انجام وبان ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے معافی وسلامتی چاہتے ہیں۔ اھ. (تذکرۃ الحفاظ ص82، ذہبی ص2) حافظ ذہبی نے اپنے وقت کے اس مرض کو جس درد انگیز طریقہ سے بیان فرمایا اور جس ہمدردی سے ذکر کیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ آٹھویں صدی میں جمود اور شخصیت پرستی کس قدر بڑھ چکی ہے۔ اور حافظ ذہبی اس سے کس قدر خائف اور متاثر ہیں۔ اور اس کے عواقب اور نتائج سے ائمہ حدیث کی دور اندیش نظریں کس قدر آگاہ ہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ اہل حدیث کے خلاف آٹھویں صدی ہجری میں بھی وہی اسلحہ استعمال ہوتے تھے جو اپنی زنگ آلود شکل میں آج استعمال ہو رے ہیں۔ یہ فقیہ نہیں یہ عطار ہیں۔ اصول سے نا آشنا ہیں۔ منطق نہیں جانتے، عقلی دلائل سے بے خبر ہیں، علم کلام ان کے اذہان سے بالا ہے۔ یہ وہی زنگ آلود اور بوسیدہ اوزار ہیں جو فلاسفہ یونان نے متکلمین کے خلاف استعمال کیے تھے متکلمین نے فقہاء کے خلاف استعمال کئے اور فقہاء کرام نے ائمہ حدیث کو ان معائب سے مطعو کیا اور اب حضرات ارباب تقلید ان لوگوں کے خلاف استعمال فرماتے ہیں۔ جو اس وقت آزادئ فکر کے حامی ہیں۔ چاہتے ہیں کہ جب ائمہ مجتدین حق پر ہیں تو ان سب کے اجتہادات کیوں قابل عمل نہ سمجھے جائیں؟ چار کی تحدید اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے نہیں فرمائی۔ بعض اوقات حکومتوں نے اپنے مقاصد یا امن عامہ کی حفاظت کے لئے کی۔ اس کے لئے شرعاً اس کی کوئی سند نہیں پائی گئی۔
Flag Counter