Maktaba Wahhabi

31 - 236
وبينهما مسافة سنين ثم جاءت بعد العقد بأكثر من بعد ستة أشهر بولد ص10 اس کی نسب کو صحیح سمجھتے ہیں۔ یہ قیاس کا عجیب کرشمہ ہے مستند قرائن کا انکار کر دیا گیا اور اوہام وظنون کی بناء پر نسبت ثابت کر دی اور بچہ ثابت النسب قرار پاگیا۔ یہ اوہام تو قابل اعتماد قرار پائے اور قیافہ کی وجہ سے خبر واحد کے پورے ذخیرہ پر عتاب فرمایا گیا کہ وہ ظنی ہے۔ شاہ ولی اللہ اس غیر معتدل طریق فکر پر کیسے مطمئن ہوتے؟ علماء اصول نے ایک قاعدہ بیان فرمایا الخاص لا يحتمل البيان حسامي ص10، نور الأنوار ص15، كشف الأسرار ص؟ التلويح على التوضيح ص34 اس قانون کا مطلب یہ ہے کہ خاص کا مفہوم چونکہ واضح اور بین ہوتا ہے اس لئے اسے بیرونی تشریح اور وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی قانون کی روشنی میں کئی مواقع میں شوافع پر حجت قائم کی۔ اور یہ ظاہر فرمایا کہ ہمارا موقف صحیح ہے اور شافعی غلطی پر ہیں۔ بلکہ اگر کہیں صحیح حدیث بھی اس قانون سے ٹکرا گئی تو حدیث کو نظر انداز کر دیا گیا اور اس قانون کی آبرو رکھ لی گئی۔ قرآن عزیز میں ارشاد ہے: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ (الحج: 77) اے ایمان والو! رکوع اور سجود کرو اور اللہ کی عبادت کرو۔ فقہائے حنفیہ فرماتے ہیں رکوع کے معنی جھکنا ہے سجود کے معنی زمین پر سر رکھنا۔ اگر کوئی شخص ذرا جھک جائے یا زمین پر سر رکھ لے تو نماز ہوجائے گی۔ گو رکوع اور سجود میں اطمینان اور اعتدال حاصل نہ ہو۔ شوافع اطمینان اور اعتداء کو فرض سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرح نماز میں رکوع اور سجود ضروری ہے۔ ٹھیک اسی طرح شرعا نماز میں طمانیت اور سکون بھی ضروری ہے اگر ان ارکان میں اعتدال نہ ہو تو شوافع اور ائمہ حدیث کے نزدیک نماز نہیں ہوگی۔ احناف فرماتے ہیں نماز ہوجائے گی کیونکہ رکوع اور سجود کا لغوی معنیٰ ثابت ہوگیا اس لئے شوافع کا خیال غلط ہے خاص کو کسی بیان اور خارجی تشریح کی ضرورت نہیں۔
Flag Counter