Maktaba Wahhabi

212 - 236
کے آخر میں فقہاء مذاہب اور ان کی فرقہ وارانہ عصبیت کے متعلق بڑا دردمندانہ شکوہ فرمایا ہے۔ آج کل دیوبند کی نوآموز پود اسی ڈگر پر جا رہی ہے جس کی شکایت علامہ نے فرمائی ہے۔ خود دیوبند اور اس کی پاک و ہند برانچوں میں تعلیم و تربیت کا انداز اس قدر غلط ہو رہا ہے کہ ان مدارس میں علم اور للہیت کی جگہ تعصب اور فرقہ پرستی پرورش پا رہی ہے۔ مختلف فیہ مسائل پر لکھنے کا انداز اتنا غلط ہو رہا ہے کہ اس پر بددیانتی اور خیانت کا شبہ ہوتا ہے۔ تقاریر میں تقویٰ اور عبادت کی بجائے باھم مناقشات بڑھائے جا رہے ہیں۔ مجالس درس میں طلبہ کی ذہنی تربیت بھی عصبیت کے جراثیم ہی سے کی جا رہی ہے اور نوآموز حضرات کا یہ غلط رویہ اکابر کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اہل حدیث مدارس میں بھی یہ زھر آلود جراثیم اثر انداز ہو رہے ہیں۔  بریلوی حضرات سے یہ شکایت ہی بے سود ہے ان کے ہاں بظاہر کوئی اصلاحی پروگرام ہی نہیں۔ مذہب کے متعلق چند بدعی تصورات اور عوام کی خوشنودی کے سوا ان کے ہاں مذہب کا کچھ مقصد نہیں۔ علامہ تاشکبری زادہ کا یہ اصلاحی شذرہ دیوبندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے لیے مستقبل کی اصلاح میں بے حد مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ عصبیت دراصل علم دریافت کی موت کے مرادف ہے۔ جو شخص حدیث اختلاف امتی رحمۃ کے مفہوم پر غور کرے اور اسے معلوم ہو کہ فرعی مسائل میں اختلاف کی بنیاد ظن پر ہے۔ وہ کسی ایک مجتہد کے حق میں تحکم اور تعصب نہیں رکھ سکتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے مذہب کی صحت اور مخالف کی غلطی کا ظن کر سکتا ہے لیکن اپنے مخالف کو مطلقاً حرام کار نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ کئی مسائل میں ائمہ اربعہ متفق ہیں۔ جب فرعی مسائل ظن ہی کے مقام پر ہیں۔ اس لیے دونوں مخالف فریق صحت اور خطا کا احتمال رکھ سکتے ہیں۔ صحت اور خطا کا یقین نہیں کیا جا سکتا۔ مقلد اور مجتہد زیادہ سے زیادہ صحت اور خطا کا ظن ہی کر سکتے ہیں اس لیے اس میں تعصب کا کوئی مقام نہیں۔  ہمارے زمانہ میں بعض مقلد اربابِ مذاہب کو تعصب کا دورہ ہوتا ہے اور وہ اُلٹی سیدھی باتیں بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہ اخلاق سے گری ہوئی بات ہے ان سے بعض
Flag Counter