Maktaba Wahhabi

211 - 236
کا نام و نشان نہ عرب میں تھا نہ عجم میں۔ تقلید آئمہ کے موجودہ انداز سے ذہن بالکل خالی تھے۔ معلوم ہے ہند پر پہلا حملہ 92ھ میں ولید بن عبد الملک کی حکومت میں ہوا۔ عرب میں تو اس وقت علماء تابعین کی کثرت تھی۔ آئمہ اربعہ کا خیال بھی اس وقت ذہن میں نہیں آسکتا تھا۔ خراسان، ایران اور فارس وغیرہ میں اس وقت آئمہ حدیث کی کثرت تھی۔ احادیث کا حفظ و ضبط، نقل و روایت ان حضرات کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ حدیث کی جمع و تدوین کے اس دور میں آئمہ کی فقہوں کا احساس بھی موجود نہ تھا۔ صحابہ اور تابعین کے فتاوٰی بلا تخصیص تعیین اہل علم کی نظر میں تھے۔ وہ مدار استناد تو تھے لیکن تقلید کا اس وقت شائبہ تک نہ تھا۔ اس وقت کی شافعیت اور حنفیت محض اساتذہ کے جزوی تاثرات تھے اہل حدیث کا مقصد بھی یہی تھا۔ اس لیے اسلامی قلمرو کے تمام گوشوں میں بھی یہی مسلک پایا جاتا تھا جسے آج ہم اہل حدیث کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ قدماء احناف کی کتابوں میں اسی مکتبِ فکر کا تذکرہ عام ملتا ہے۔ شیخ عبدالعزیز بن احمد بخاری مولف کشف الاسرار (481ھ) شرح اصول بزدوی میں صحابی کی تعریف کے ذکر میں فرماتے ہیں: اختلفوا فی تفسیر الصحابی فذھب عامۃ اصحاب الحدیث وبعض اصحاب الشافعی الی ان من صحب النبی صلعم لحظۃ فھو صحابی (کشف الاسرار ص 704 ج 2) ایک لحظہ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا وہ صحابی ہے یہاں اصحاب الحدیث کا ذکر آئمہ اصول کے تذخرہ میں آیا ہے۔ اصول بزدوی اور کشف الاسرار ص 291 ج 2 میں مرقوم ہے۔ ذھب اکثر اصحاب الحدیث الی ان اخبار اللتی اھل الصنعۃ بمحتھا توجب علم الیقین 1ھ۔ جن احادیث کو آئمہ فن نے صحیح کہا ہے وہ اہل حدیث کے نزدیک یقین کا فائدہ دیتی ہیں۔ اس کے باوجود ایسے بزرگ دنیا میں موجود رہے جو مروجہ مذاہب سے تعلق اور آئمہ کے احترام کے ساتھ اس عصبیت کو ناپسند فرماتے تھے۔ چنانچہ 962ھ میں مولانا احمد بن مصطفٰے تاشبکری زادہ نے مفتاح السعادہ والیسادہ میں فقہ اور فقہاء کے متعلق بڑا معنیٰ خیز ار پُر از معلومات مقالہ لکھا ہے اس 
Flag Counter