Maktaba Wahhabi

188 - 236
پھر ان آثار کی اسانید پر بھی کبھی آپ نے غور فرمایا شاید ہی ان میں کوئی سند صحیح طور پر صاحب روایت تک پہنچ سکے۔ بشرط صحت ان آثار کا مفاد زیادہ سے زیادہ تنزیہہ ہو سکتا ہے۔ ان کی بنا پر کوئی تشریعی حکم نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن آپ کے ہاں اکفار و تکفیر اور اقتداء پر پابندیاں ایک دل لگی ہے۔ اور دل خوش کن مشغلہ والکفر عندکم رخیص سعرہ حصوا بلا کیل ولا میزان میری گزارش اس قدر ہے کہ یہ فتویٰ بازی ان دلائل کی بنا پر دیانتہً بھی مناسب نہیں اور آپ کی پارٹی علمی طور پر بھی اس کی اہل نہیں کہ ایسے اہم اور ذمہ دارانہ مسائل میں جسارت کر سکے۔ آپ حضرات کے لیے اعراس، موالید، اسقاط، ختم، ساتواں، چالیسواں، جمعرات ایسے مفید مشاغل کیا کم ہیں۔ آپ خواہ مخواہ ایک علمی ذمہ داری کے لیے میدان میں تشریف لے آتے ہیں۔ (11) کنوئیں کی پاکیزگی، ڈولوں کی مقدار اور تعداد میں جو تفاوت رکھا گیا ہے وہ بھی محض آثار ہی ہیں۔ کتاب اللہ یا سنت صحیحہ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ایک کوئیں میں چڑیا یا چوہا یا ممولا وغیرہ گر جائیں تو آپ کے ہاں بیس ڈول نکالنے سے کنواں پاک ہوگا۔ خاموشی سے تقلیداً مان لینا تو اور بات ہے۔ ذرا سوچیے انیس (19) ڈول نکلنے تک تو کنواں بالکل ناپاک ہوگا۔ بیسواں ڈول ساری پلیدی لے کر باہر آ جائے گا اور آپ یقین کریں گے اور مطمئن ہوں گے کہ اب کنواں بالکل پاک ہے۔ لیکن اس بیسویں ڈول سے جو پلیدی کا بقیہ لے کر آ رہا ہے جس قدر قطرے کنویں میں گریں گے کنواں پھر سے پلید نہ ہوگا۔ دراصل ان تمام آثار کی بنیاد نزاھت اور طبعی کراہت پر ہے۔ آپ نے اسے تشریعی حکم قرار دے کر پانی کے چند قطروں سے پاک اور پلید کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی، چہ عجب! اتنی کمزور عبارت اور بودے دلائل کے ہوتے ہوئے آپ اہل حدیث اور موالک پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان کا مسلک استدلال کے لحاظ سے کافی مضبوط ہے۔ یہ مسئلہ کس قدر صاف اور معقول ہے کہ پانی کم ہو یا زیادہ۔ کنوئیں میں ہو یا تالاب میں۔ تالاب دہ در دہ ہو یا چھوٹا، اس میں نجاست گرے اور اس کے بعض یا کل اوصاف یعنی رنگ، بو اور مزہ کو بالکل بدل دے تو پانی پلید ہو جائے گا۔ اور اس میں اگر
Flag Counter