اقوال ائمہ تقلید کے رد میں ائمہ اجتہاد تقلید کے رد میں متفق ہیں اور انہوں نے صراحتاً اپنی اور غیر کی تقلید سے تاکیداً رد کیا ہے۔مولانا فرماتے ہیں :یہ حکم ان لوگوں کے لیے نہیں جو صلاحیت اجتہاد سے مرحوم ہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے ہے جن میں اجتہاد کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔ارشاد گرامی موجب تعجب ہے۔مجتہد تو تقلید کا مکلف ہے نہیں اسے روکنا عبث ہے۔دراصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو مقام اجتہاد کو نہیں پہنچے لیکن وہ دین کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں جیسے جناب یا اس قسم کے دوسرے علما۔عامی کا تو یوں ہی کوئی مذہب نہیں وہ بے چارہ ائمہ اجتہاد سے کہیں زیادہ محلے کی مسجد کے امام کا مقلد ہوتا ہے۔اسے کیا معلوم کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کیا فرماتے ہیں۔اس کی زندہ مثال ہمارے عوام ہیں اور بریلوی علما۔عوام ان مزخرفات کو حنفی مذہب سمجھتے حالانکہ ان پریشان خیالیوں کی حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فرشتوں کوبھی خبر نہیں تھی۔اب صورت حال یوں ہے کہ مجتہد کو تقلید کی ضرورت ہے نہیں،آپ اور ہم ایسے لوگوں کو خود ائمہ نے روک دیا۔عامی بے چارے کا کوئی مذہب ہی نہیں وہ تو ان علما کا مقلد ہے جن کو تقلید حکماً روک دیا گیا ہے فأین التقلید چوتھے شبے میں آپ نے شاہ ولی اللہ صاحب کا حوالہ دیا ہے ہم بھی شاہ صاحب کے مسلک کی وضاحت اوپر کر آئے ہیں ومن استزاد فلدینا مزید پانچویں شبہ کے جواب میں مولانا فرمایا ہے کہ تذکیر کی آیات آسان ہیں اور احکام کی آیات مشکل۔یہ بڑا پرانا مغالطہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور سنت میں علی الاطلاق مشکل مقامات بھی ہیں اور آسان بھی لیکن یہ بالکل بے معنی ہے کہ اسے مجتہد کے سوا سمجھنا ممکن نہیں۔آپ حضرات مدارس میں پڑھاتے ہیں کتابوں پر شروح اور حواشی لکھتے ہیں آپ کے مخالفین بھی اپنی بساط کے مطابق یہی کچھ کرتے ہیں ان کے لیے ائمہ اجتہاد نے فرمایا ہے اپنی سمجھ کے مطابق کتاب وسنت پر عمل کرو اورہماری تقلید سے بچو خذوا الاحکام من حیث اخذوا(احکام کوقرآن وسنت سے سمجھو) لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ:286)مسئلہ مشکل ہو یا آسان مواخذہ استعداد اور نیت کے مطابق ہو گا۔ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |