Maktaba Wahhabi

667 - 670
محبوب نہیں تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے پاس جانے سے کھڑے نہیں ہوا کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے برا سمجھتے ہیں۔" اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے: "مَنْ أَحَبَّ أَنْ يتمثلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"[1] "جو اپنے لیے مردوں کے کھڑا ہونے کو پسند کرتا ہے وہ اپنا ٹھکانا جہنم سے بنا لے۔" اور اس معاملے میں عورتوں کا حکم بھی مردوں کے حکم جیسا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا و خوشنودی کی توفیق دے اور ہمیں اپنی ناراضگیوں اور نافرمانیوں سے بچالے، اور تمام کو مفید علم اور اس کے مطابق عمل عطا کرے۔انہ جواد کریم (سماحۃ الشیخ عبد العز یز بن باز رحمۃ اللہ علیہ ) مطلوبہ واجبات میں سستی کرنے پر لڑکیوں کو مارنے کا حکم : سوال:تعلیم اور مطلوبہ واجبات کی ادائیگی پر ابھارنے اور ان میں کسی طرح کی سستی نہ کرنے کی عادت ڈالنے کی غرض سے طالبات کو مارنے کا کیا حکم ہے؟ جواب:اس میں کوئی حرج نہیں، لہٰذا استاد ،استانی اور باپ ان تمام کا ذمہ ہے کہ وہ بچوں پر توجہ کریں اور جو بھی تادیب کا مستحق ہو اس کی تادیب کریں اگر وہ واجب کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تاکہ وہ عمدہ اخلاق کا عادی ہو جائے اور وہ نیک عمل پر مضبوط ہوجائے ۔یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مُرُوا أَوْلادَكُمْ بِالصَّلاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ "[2] "اپنے بچوں کو ساتویں سال میں نماز کا حکم دو۔ اور اس پر انھیں دس سال میں مارو پیٹو اور ان کے بستر الگ الگ کردو۔" اور مذکر اور مؤنث اولاد جب دس سال کو پہنچ جائیں اور نماز میں کو تاہی کریں تو انھیں مارا جائے اور انھیں ادب سکھایا جائے تاکہ وہ نماز کی پابندی کریں ۔اسی طرح تعلیم
Flag Counter