Maktaba Wahhabi

661 - 670
جواب:اگر اس بچے میں روح بھر دی گئی ہے تو کسی صورت میں بھی اسے گرانا جائز نہیں حتیٰ کہ اگرماں کی موت اورحمل کے مریض پیدا ہونے کا خطرہ ہو کیونکہ یہ ایک محترم جان ہے،لہذا بچہ جب چار مہینے کا ہوتا ہے اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ،اس کا رزق،موت،اس کا عمل،بدبخت ہونا یا نیک بخت ہونا لکھ دیا جاتاہے۔اور اگر یہ (مذکورہ مشورہ) روح پھونکے جانے سے پہلے ہو اور ڈاکٹروں کے بیان کے مطابق وہ ایسا معلوم اور ظاہر معاملہ ہوتو اسے گرانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ ایسی حد تک نہیں پہنچا جس میں وہ جاندار کہلاسکے تو جب یقین ہوجائے کہ یہ بچہ ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق مسخ شدہ اور خراب شکل وصورت پر پیدا ہوگا اور اپنے آپ پر اور گھر والوں پر بوجھ ہوگا تو اس کو ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ ) اسقاط حمل کی تدابیر اختیار کرنے کا حکم: سوال:اسقاط حمل کی تدابیر اختیار کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب:حمل گرانے والی چیز کے استعمال کی دو صورتیں ہیں: 1۔پہلی صورت کہ اسے گرانے کا مقصد اسے ضائع کرنا ہوتو یہ اگر روح پھونکے جانے کے بعد ہے تو بلاشبہ حرام ہے۔ کیونکہ یہ ناحق ایسی محترم جان کو قتل کرناہے جسے اللہ نے حرام کیا ہے،اور ایسی نفس محرمہ کو قتل کرنا کتاب وسنت اور مسلمان کے اجماع کی وجہ سے حرام ہے۔ اور اگر روح پھونکے جانے سے پہلے ہوتو اس کے جائز ہونے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے،کچھ نے جائز قرار دیا ہے اور کچھ نے ناجائز،اور کچھ نے کہا ہے کہ لوتھڑا ہونے تک جائز ہے،یعنی اس پر چالیس دن بیت جائیں،اور بعض نے خلقت انسانی ظاہر ہونے سے قبل تک جائز کہاہے۔زیادہ احتیاط والا پہلو یہی ہے کہ اسے کسی ضرورت کے بغیر گرانا جائز نہیں،مثلاً:والدہ بیمارہو اورحمل کو برداشت نہ کرسکتی ہو تو تب اس شرط سے گرانا جائز ہوگا کہ اگر اس پر انسانی خلقت ظاہر ہونے کا وقت نہ آیا ہو،اگر اس کیفیت کو
Flag Counter