Maktaba Wahhabi

470 - 670
اقوال میں سے صحیح قول کے مطابق عورت پر طلاق واقع نہیں ہو گی، الایہ کہ شرعی قاضی اس کے وقوع کا فیصلہ کردے ،پس اگر وہ وقوع طلاق کا فیصلہ دے دے تو طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ اجتہادی مسائل میں قاضی کا فیصلہ اختلاف دور کرنے والا ہوتا ہے۔ ایسے ہی اگر شوہر مجنون ہو یا اس کو طلاق دینے پر مجبور کیا گیا ہو یا نشے کی حالت میں ہو اگرچہ وہ اہل علم کے صحیح قول کے مطابق گناہ گار یا اس کو اتنا شدید غصہ آئے جو اس بات کی تائید کرتے ہوں کہ اس نے جو شدت غضب کا دعوی کیا ہے جس پر اس کی مطلقہ بیوی کی تصدیق یا کوئی اور معتبر اور واضح شہادت بھی موجود ہو۔وہ دعویٰ صحیح ہے تو اس صورت میں مرد کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہو گی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاث : عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَبْلُغَ الْحِنْثَ ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ " [1] "تین قسم کے آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے: بچے سے حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائے، سونے والے سے حتیٰ کہ وہ بیدار ہوجائے اور مجنون سے حتیٰ کہ اس کا جنون ختم ہو جائے۔" اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے: "مَن كَفَرَ بِاللّٰـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ" (النحل:106) "جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔" جو شخص کفر پر مجبور کیا جائے اس کو کافر قرارنہیں دیا جائے گا۔ بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہوتو جو طلاق پر مجبور کیا جائے اس کو بدرجہ اولیٰ طلاق دینے والا نہیں سمجھا جائے گا ،بشرطیکہ اس کے طلاق دینے کا سبب صرف جبراواکراہ ہو۔
Flag Counter