لہذا مرد جتنے خرچ کی طاقت رکھتا ہو بیوی کو اس سے زیادہ کا مطالبہ کرنا حلال نہیں ہے اور اگر وہ طاقت رکھتا ہو پھر بھی اس کے لیےمعروف معمول سے زیادہ طلب کرنا حلال نہیں ہے۔کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ" (النساء:19)
"ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو۔"
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ" (البقرۃ:228)
"اور معروف کے مطابق ان(عورتوں) کے لیے اسی طرح حق ہے۔"
اور ایسے ہی خاوند کے لیے اپنے ذمہ واجب خرچ کو روکنا حلال نہیں ہے کیونکہ بعض خاوند اپنی سخت بخیلی کی وجہ سے اپنے اوپر واجب خرچ بھی اپنی بیوی پر نہیں کرتے ہیں،ایسی حالت میں عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خاوند کےمال سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے لے لیاکریں،چاہے اس کو علم نہ ہو۔ہند بنت عتبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت کی کہ ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہے وہ ان کو ا تنا خرچ بھی نہیں دیتا جو ان کو اور ان کے بچوں کے لیے کافی ہوتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوکہا:
" خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ "[1]
"تو احسن انداز میں اتنا مال لے لیا کرو جو تجھے اور تیرے بچوں کو کافی ہو۔"(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
خاوند کا ا پنی کام کاج اور اس کی اور بچوں کی خدمت سے عاجز بیوی کو خادمہ لے کردینے کا حکم:
سوال:ایک بیوی ا پنے خاوند اور بچوں کے حقوق اور گھر کےکام کاج سے عاجز آگئی ہے،وہ چاہتی ہے کہ اس کی کوئی خادمہ ہو تو کیا اس کا شوہر اس کو خادمہ رکھ دے؟
جواب:نوکرانی رکھنے کا مسئلہ فخر وتکبر کے اظہار کا ذریعہ بن چکاہے اگرچہ بیوی کو اس کی
|