Maktaba Wahhabi

263 - 670
جواب:جہاں تک آدمی کا تعلق ہے تو وہ جیسا کہ تم نے سنامسافر ہے اور سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑے ہوئے ہے ،جب وہ اپنے شہر میں آیا تب بھی وہ روزے سے نہیں تھا تو اس مسافت کے مسافر کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے،ان میں سے بعض نے تو کہاہے:بلاشبہ جب مسافر اپنے شہر میں اس حال میں آئے کہ وہ مفطر تھا تو اس کو رمضان کا احترام کرتے ہوئے(کھانے پینے وغیرہ سے) رکنا لازم ہے اگرچہ اس کا یہ رکنا(روزے کے اعتبار سے) کچھ بھی شمار نہ ہوگا کیونکہ اس کو اس دن کے روزے کی قضا دینا ہی پڑے گی۔اور علماء میں سے بعض نے کہا ہے کہ جب مسافر روزہ چھوڑ کر اپنے شہر میں لوٹے تو اس پر(کھانے پینے وغیرہ سے) رکنا لازم نہیں ہے بلکہ اس کو دن کے باقی حصے میں کھانا پینا جائزہے،اور یہ دونوں قول امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی مروی ہیں۔ان میں سے صحیح قول یہ ہے کہ اس کے لیے(کھانے پینے وغیرہ سے) رکنالازم نہیں ہے۔کیونکہ اس کو اس رکنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اس کے حق میں یہ وقت حرام نہیں ہے،اس لیے کہ اس کے لیے دن کے اول حصے میں کھانا پینا مباح تھا جبکہ روزہ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک افطار کرنے والی اشیاء سے رکنے کا نام ہے،اسی لیے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: "جس نے اول دن میں کھایا وہ آخر میں بھی کھائے کیونکہ اس کے حق میں یہ دن حرام نہیں ہے۔" اس قول پر بنیاد رکھتے ہوئے اس آدمی کے لیے ،جو دن کے وقت مفطر بن کر اپنے شہر میں لوٹا،دن کے باقی حصے میں کھانا پینا جائز ہے۔ رہاجماع کرنا تو اس کے لیے اپنی روزہ دار بیوی، جس نے فرض روزہ رکھا ہوا ہے،جماع کرنا جائز نہیں ہے ،کیونکہ جماع اس کے روزے کو فاسد کردے گا،پس ا گر خاوند اس کو مجبور کرکے اس سے جماع کرلے تو عورت پر کوئی کفارہ نہیں ہے،اور اس خاوند پر بھی کفارہ نہیں ہے کیونکہ جب وہ سفر سے مفطر بن کر اپنے شہر میں لوٹا اس پر کسی چیز سے رکنا لازم نہیں ہے۔(فضیلۃالشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
Flag Counter