Maktaba Wahhabi

85 - 444
’’مسنون ‘‘ ہے۔ اور جب کہیں گے:سَنَّ الْاَمْرَ… تو اس کا مطلب ہوگا:بَیَّنَہُ… اس نے معاملہ کو وضاحت سے بیان کر دیا۔ اور ’’السُّنَّہ‘‘ کا معنی طریقہ اور سیرت بھی ہوتا ہے۔ چاہے یہ طریقہ قابل ستائش ہو یا قابلِ مذمّت۔ اس کی مثال نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرامین میں موجود ہے۔ ۱… سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَتَتَّبِعَنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشبِرٍ وَذِراعًا بِذِراعٍ)) [1] ’’تم لوگ بالشت برابر بالشت کے اور ہاتھ برابر ہاتھ کے ان کے طریقوں پر ضرور چلو گے جو تم سے پہلے تھے۔ ‘‘(یعنی دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں یہود و نصاریٰ کے طریقوں پر) ۲…سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ أَجْرُھا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا بَعْدَہُ ؛ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُورِھِمْ شَيْئٌ ، وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً …))[2] ’’جس نے اسلام میں آکر نیک بات (یعنی کتاب و سنت کی بات) جاری کی (بات سے مراد طریقہ و عمل ہے) تو اس کے لیے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد (اس کی دیکھا دیکھی) یہ مسنون عمل کریں گے اُسے ان کا بھی ثواب ملے گا۔ بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ اجروثواب کم ہو۔ اور جس نے اسلام میں آکر کوئی برا طریقہ ایجاد کیا (کسی بدعت کی بنیاد ڈالی کہ جس سے قرآن و سنت نے منع کیا ہو یا اس کے مد مقابل قرآن و سنت میں
Flag Counter