Maktaba Wahhabi

317 - 444
رہنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ ان کا انکار ان لوگوں کے سامنے کرے۔ انہیں نیکی کاحکم دے اور انہیں خلاف شرع برے کاموں سے منع کرے اور (اگر اسلامی حکومت موجود ہو تو) ان پر حدود و تعزیرات قائم کی جائیں حتی کہ وہ اپنی نافرمانیوں اور جرائم سے باز آجائیں۔ اور اپنے گناہوں سے توبہ کر لیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ حمار نامی ایک صحابی کے ساتھ معاملہ کیا تھا۔ وہ کبھی کبھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی خوش کرنے والی بات کے ذریعے ہنسا دیا کرتا تھا۔ ایک دن وہ شراب پی کر آگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوڑوں کی سزا کا حکم فرمایا۔ چنانچہ اسے کوڑوں کی سزا دے دی گئی۔ قوم میں سے ایک شخص نے کہا:اللہ اس پر لعنت کرے۔ کمبخت کتنی بار شراب کی علت میں آچکا ہے۔ (بار بار پیے جاتا ہے ، باز نہیں آتا۔) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لاَ تَلْعَنُوْہُ ، فَوَاللّٰہِ مَاعَلِمْتُ ، أَنّہُ یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ)) ’’اس پر لعنت نہ کر و۔ اللہ کی قسم ! میں تو یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘[1] مگر اس کے باوجود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حد قائم فرمائی۔ ثالثًا…مطلق طور پر بیزاری ونفرت کے حق دار لوگ : اور اس سلوک کے مستحق تمام مشرکین و کفار ہیں۔ چاہے وہ یہودی ہوں یا نصرانی یامجوسی یا ملحد یا بت پرست ہوں۔ اور یہ حکم ان لوگوں پر بھی منطبق ہوگا جو اہل اسلام میں سے کفر کو لازم کرنے والے افعال کا ارتکاب کریں گے۔ جیسے کہ:اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اور کو پکارنا۔ یا اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور سے استغاثہ کرنا۔ یا اللہ رب کبریاء کے علاوہ کسی اور پر توکل کرنا۔ یا اللہ عزوجل ، اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اُس کے دین کو گالی دینا۔ یا دین حنیف ، اسلام کو انسانی زندگی کے اکثر یا بعض شعبوں سے اس عقیدے کے ساتھ جدا کر دینا کہ یہ دین عصر حاضر سے میل نہیں کھاتا۔ وغیر ذلک من الامور۔
Flag Counter