Maktaba Wahhabi

105 - 444
تمام کے تمام ارکان کے ساتھ ہی قائم رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ عمارت اپنے تما م کے تمام ارکان (تمام دیواروں اور ستونوں) کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ یہی مذکور بالا چھ اُمور ہی ارکانِ ایمان ہیں۔ پس اس صحیح ترین صورت میں کہ جس پر کتاب اللہ العزیز اور سنۃ رسول اللہ الکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دلائل پیش کیے ہیں ایمان ان سب ارکان کے بغیر ہر گز پورا نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی شخص ان ارکان میں سے کسی کے بارے میں کسی طرح کا جھگڑا کرے تو وہ قطعًا مومن نہیں ہے۔ رکن اوّل …ایمان باللہ اللہ عزوجل پر ایمان کا معنی ہے :اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس کے بارے میں قطعی اور یقینی تصدیق ، (کہ ساتوں آسمانوں سے اُوپر جیسے اُس کی ذات کو لائق ہے ویسا وہ اپنے عرش عظیم پر مستوی ہے اور اس کی کرسی تمام آسمانوں اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔) تمام صفات کمال اور عظمت والی صفات عالیہ کے ساتھ اُس کا متصف ہونے پر یقین محکم ، عبادت (کی تمام انواع و اقسام اور سب کی سب عبادات) میں صرف اسی ایک اللہ وحدہ لاشریک لہ کو حق دار جاننا اور ماننا ، اس یقین محکم و ایمان باللہ کے ساتھ دل کا اس قدر کامل اطمینان حاصل ہونا کہ اس کا اثر انسان کی عملی زندگی میں نمایاں نظر آئے اور اللہ عزوجل کے احکام و اوامر کا التزام اور اس کے منع کردہ کاموں اور چیزوں سے مکمل اجتناب عملی زندگی میں دکھائی دے۔ (یعنی اقرار باللسان ، تصدیق بالقلب اور عمل بالجوارح کے ساتھ مسلمان آدمی اپنے ایمان کو مکمل کرے۔) یہ وضاحتی شروط ہی دراصل عقیدۂ اسلامیہ کی بنیاد اور اس کا خلاصہ ہیں۔ یہی دین اسلام کی اصل اول ہے اور عقیدہ کے تمام ارکان کی نسبت بھی اسی اصل اول کی طرف ہے اور سب کے سب ارکان ایمان اسی اصل کے تابع بھی ہیں۔ …پس اللہ رب العالمین ، خالق و مالک کائنات ارض و سما ء و مابینہما کی ہر ہر
Flag Counter