Maktaba Wahhabi

73 - 444
جو بھی ان کے نقش قدم پر چلے گا اس کا انجام بھی یہی ہوگا۔ یہاں موسیٰ علیہ السلام کے دور میں فرعون اور اس کی افواج کو سمندر میں غرق کرنے والا واقعہ۔ اس لیے بیان کیا تاکہ ان کے بعد آنے والے عبرت حاصل کریں اور دوسروں کو اس کی وعظ و نصیحت کرتے رہیں۔ اور ’’السَّلَفُ‘‘ کا معنی ہوتا ہے :تمھارے آباؤ اجداد اور تمھارے قرابت داروں میں سے وہ لوگ جو عمر اور فضیلت میں تم سے فوقیت والے تھے اور وہ دنیا سے گزر چکے ہیں۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ جمیعًا والی پہلی صدی ہجری کے لوگوں کو ’’سلف صالحین ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی معنی: عقیدہ کے موضوع پر لکھنے لکھانے اور پڑھانے والے علماء کرام کے نزدیک جب ’’سَلَف‘‘ کا لفظ مطلق طور پر بولا اور استعمال کیا جاتا ہے تو بلاشک وشبہ ان سب کی تعریفات صحابہ کرام کے گرد گھومتی ہیں۔ یعنی اس لفظ کا اطلاق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ہوتا ہے یا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ پر۔ یا حدیث میں مذکور فضیلت والے پہلے تینوں زمانوں کے اہلِ ایمان یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین اور تبع تابعین عظام رحمہم اللہ جمیعًاپر۔ کہ یہ لوگ امامت و فضیلت ، سنت کی مکمل اتباع اور منہج سنت میں امامت واقتداء کے حقدار ، اجماعِ امّت سے مصدَّق آئمہ اعلام (دین حق کے صحیح نشان راہ) تھے۔بدعات و خرافات سے اجتناب و حذر ان کی پہچان تھی۔ اور یہ وہ لوگ تھے کہ تمام امت اسلامیہ کے علماء عظام ان کی امامت اور دین حنیف میں ان کی عظمت شان پر متفق ہو چکے ہیں۔ اسی لیے صدر اول کے اہل ایمان کو ’’سلف صالحین ‘‘ کہاجاتا ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی قدر ہے : ﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾ (النساء:۱۱۵) ’’ اور جو کوئی سچی راہ کھل جانے کے بعد پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرے
Flag Counter