Maktaba Wahhabi

57 - 264
ایک سلف کا اور ایک خلف کا۔ سلف دین کے اصولوں میں کوئی تنازع نہیں برتتے تھے اور نہ اس میں کسی طرح کا کوئی اختلاف کرتے تھے۔ وہ اس بات میں کوئی دورائے نہیں رکھتے تھے کہ تمام باہمی اختلافات میں قران وسنت کی جانب رجوع کیا جائے۔ چنانچہ وہ اپنے معاملات کے فیصلے انہی دو ذرائع سے کرتے تھے اور وہ اس کے آگے مکمل سر تسلیم خم کر دیتے تھے، جیسا کہ ہم گذشتہ قرآنی آیت کے تحت بیان کر آئے ہیں۔ ان کے درمیان اختلاف کی بنیادی وجہ جس کی طرف میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں، وہ یہ تھی کہ ان میں کسی کے پاس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث نہ پہنچی ہو، تو وہ پھر اپنے ذاتی اجتہاد کی بنیاد پر جو سب سے زیادہ مناسب اور بہتر رائے تصور کرتا تھا اس کے مطابق عمل کرتا۔ چنانچہ بسا اوقات وہ غیر ارادی طور پر اور بلا قصد غلطی میں مبتلا ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحیح حدیث میں فرمایا: ’’اگر حاکم/ مجتہد اپنے ذاتی اجتہاد کی بنیاد پر فتویٰ دے اور وہ صحیح ہو تو اسے دوہرا اجر ملے گا اور اگر وہ غلطی کر جائے تو اسے اکہرا اجر ملے گا۔‘‘[1] چنانچہ ہر مسلم پر یہ واجب ہے کہ وہ اس اصول کی طرف پلٹے جس کے متعلق کوئی اختلاف رائے نہیں کہ قرآن وسنت کی پیروی سلف صالحین کے فہم کے مطابق کرنا۔ پھر اگر ہم اس نظام پر متفق ہو جائیں اور اسے اپنا وظیفہ حیات اور اپنے عمل ومنہج کی بنیاد بنائیں اور مزید یہ کہ ہم اس بات پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے لیے راضی ہوں یعنی اولاً: اس منہج کو سمجھنے میں۔ ثانیاً: اس کی عملی تطبیق یعنی تنفیذ پر۔ تو پھر اسکے بعد ایک انتہائی اہمیت کا حامل مرحلہ آئے گا جو کہ خلاصہ ہے میرے اس جواب کا جو مسلمانوں کے عروج و ترقی کی جانب سفر کے آغاز کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔ آج یہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے دین کا صحیح فہم حاصل کرے،
Flag Counter