وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا،} (النساء:83)
’’اور جب انھیں امن یا خوف کی کوئی خبر ملے تو اس کو انھوں نے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کردیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے اوپر نہ ہوتی تو چند لوگوں کو چھوڑ کر تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ مسائل کی معلومات کے لیے علماء کی طرف رجوع کیا جائے گا نہ کہ اہل رائے کی طرف، کیونکہ اہل رائے اہل استنباط میں سے نہیں ہیں۔
علامہ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: بندہ کو چاہیے کہ جب اس کے پاس کوئی اہم واقعہ پیش آئے جس کا تعلق امن و امان اور مسلمانوں کی خوشی سے ہو یا کوئی خوف کا معاملہ آئے تو اس پر صبر سے کام لے اور اس کو عام کرنے میں جلدی نہ کرے۔ بلکہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹادے یا اہل علم کی طرف لوٹادے جو معاملات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اگر دیکھیں کہ اس کو عام کرنے میں مسلمانوں کی مصلحت ہے تو کرسکتے ہیں اور اگر دیکھیں کہ مسلمانوں کی مصلحت نہیں ہے یا اگر ہے بھی تو نقصان مصلحت سے زیادہ ہے تو اس وقت اس کو عام نہ کریں۔ اسی لیے فرمایا: {لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ} نیز اس آیت میں کسی بھی معاملہ کو میں جلدی کرنے سے روکا گیا ہے۔ پھر کہا: {وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ} اس میں اللہ کی توفیق و تائید شامل حال ہے اور تمہیں ایسی تعلیم مل رہی ہے جس کو تم نہیں جانتے تھے۔ {لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا} اس لیے کہ انسان طبعی اعتبار سے ظالم ہے جاہل ہے۔ اس کا نفس اس کو برائی کی طرف آمادہ کرے گا، لیکن جب بندہ اپنے رب کی طرف رجوع ہوا تو شیطان رجیم سے محفوظ ہوگیا۔[1]
|