وَإِنَّ الْعَالِمَ لَیَسْتَغْفِرُ لَہُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ حَتّٰیٰ الْحِیْتَانُ فِي الْمَائِ، وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَیٰ الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَیٰ سَائِرِ الْکَوَاکِبِ، إِنَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَائِ، إِنَّ الْأَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَلَا دِرْہَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِہِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ۔))[1]
’’جو شخص ایسا راستہ اختیار کرتا ہے جس میں علم تلاش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی راہ چلائے گا، فرشتے طالب علم کی خوشی میں اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں۔ پھر اس عالم کے لیے آسمان و زمین کی تمام چیزیں مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر۔ بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء علیہم السلام نے دینار و درہم نہیں چھوڑا ہے بے شک انھوں نے علم کو چھوڑا ہے، لہٰذا جس نے علم سیکھا اس نے بہت زیادہ حصہ سیکھا۔‘‘
ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا: یہ حدیث واضح طور پر یہ بات بیان کرتی ہے کہ جن علماء کی فضیلت اس میں بیان کی گئی ہے یہ وہی علماء ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو جانتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’العلماء ورثۃ الانبیائ‘‘ اور انبیاء نے صرف علم دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم آپ کی سنت ہے۔ اب جس نے اس کو نہیں سیکھا وہ انبیاء کا وارث نہیں ہے۔[2]
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{وَ اِذَاجَآئَ ہُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰٓی اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُمْ
|