اور یہی طریقہ اہل بدعت کا ہے۔ اسی لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ قیاس اور تاویل کی وجہ سے غلطی کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ معتزلہ، مرجیہ اور رافضہ جیسے بدعتیوں کو دیکھیں گے کہ وہ قرآن کی تفسیر اپنی عقل و رائے سے کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہ احادیث پر اعتماد کرتے ہیں اور نہ ہی اقوال صحابہ و تابعین، اور ائمہ کرام پر اعتماد کرتے ہیں، نہ کتب تفسیر و کتب احادیث اور آثار سلف پر بھروسہ کرتے ہیں بلکہ لغت ادب اور اہل الکلام کی کتابوں پر کلی اعتماد کرتے ہیں، یہی طریقۂ کار ملحدوں کا بھی ہے۔
یہ لوگ انبیاء کرام کے نصوص سے اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ علم کا فائدہ نہیں دیتی ہے۔[1]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ہے ’’تم کسی ایسے مسئلہ میں بات مت کرو جس کا کوئی امام نہ ہو اور یاد رکھو فہم قرآن و احادیث اور آثار سلف کو چھوڑ کر محض لغت و عقل پر اعتماد کرنا اس زمانے میں مستشرقین کا طریقہ ہے۔ اگر انھیں کسی قول وغیرہ کی ضرورت پڑی تو جاحظ کی کتابوں سے نقل کرلیا یا پھر اغانی، العقد الفرید سے نقل کرلیا اور اگر نقل کرنا مشکل ہوگیا تو کہتے ہیں، یہی عقل کا تقاضا ہے۔‘‘
ایک مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا متبع ہے وہ فہم قرآن و سنت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کے ساتھ مقید کردیتا ہے ان سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اگر کہیں کسی مسئلہ میں اجتہاد کی ضرورت محسوس ہوئی تو سلف کے اقوال کو دیکھتا ہے اگر سلف سے کوئی قول مل گیا تو لے لیتا ہے ورنہ اس مسئلہ کو ترک کردیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہر قسم کی بھلائی سلف صالحین کی پیروی میں ہے اور ہر قسم کی شر بعد کی بدعتوں میں ہے۔
ابن حجر کہتے ہیں کہ امام اوزاعی نے کہا علم وہ ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہو ورنہ علم نہیں ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ برابر خیر میں رہیں گے جب تک علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بڑوں سے لیتے رہیں گے اور جہاں انھوں نے علم اصاغر سے لینا
|