اختیار کیا جائے گا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے قول کو ہرگز نہیں لیا جائے گا اگر اس مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام کا کوئی قول نہیں ہے تو تابعین کے اقوال کو لیا جائے گا۔[1]
میں کیا کہتا ہوں کہ ائمہ کرام کی بات اس بارے میں ایک ہے۔ اب جو شخص اس منہج سے نکل گیا وہ مومنوں کے راستہ سے نکل گیا۔ واللہ اعلم
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا: جس نے قرآن یا حدیث کی تفسیر کی اور صحابہ کرام اور تابعین سے جو تفسیر ثابت ہے اس کو چھوڑ کر کوئی دوسری تفسیر کی تو اس نے اللہ پر بہتان باندھا۔ وہ ملحد ہے۔ اللہ کے کلام میں تحریف کرنے والا ہے، پھر اس نے زندیق اور ملحد کے لیے دروازہ کھول دیا ہے اور وہ مکمل باطل ہے۔[2]
کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی آیت یا حدیث کا وہ معنی بیان کرے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیان کردہ معنی کے خلاف ہو۔
ابن رجب کہتے ہیں: ائمہ سلف امام شافعی، احمد، اسحق اور ابوعبیدہ کے زمانے تک کے کلام کو لکھنا ضروری ہے تاکہ انسان بعد والے فتنوں سے محفوظ رہ سکے کیونکہ بعد میں عجیب و غریب فتنے پیدا ہوں گے ۔[3]
چونکہ کتاب و سنت کا فہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کی روشنی میں ضروری ہے، اسی لیے آپ اہل حدیث کو دیکھیں گے کہ قرآن کی تفسیر اور حدیث کے معنی و مفہوم بیان کرنے میں محض لغت، رائے اور عقل کا استعمال نہیں کرتے ہیں بلکہ احادیث میں دیکھتے ہیں سلف کے اقوال کو ان کی کتابوں سے جمع کرتے ہیں اور اسی پر اپنی فقہ و اجتہاد کی بنیاد رکھتے ہیں۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا: ایمان کے باب میں مرجیہ کتاب و سنت، اقوال صحابہ و تابعین کے بیان سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انھوں نے اپنی عقل کی بنیاد پر ایمان کی تعریف کی،
|