کامیاب نہیں ہوگا۔ یعنی مقلد اپنے امام سے دلیل کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔[1] جبکہ ہم کو حکم ہے کہ ہم کتاب و سنت کی اتباع کریں اور کتاب و سنت کی روشنی میں سوالات کے جوابات کا مطالبہ کریں۔
ہمارے اور مقلدین کے درمیان یہی فرق ہے۔ پھر یہ لوگ ائمہ کرام کو وہ مقام و مرتبہ دیتے ہیں جو مقام اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی دوسرے انسان کو نہیں دیا ہے۔
دوسری بات جس کا اعتراف کھلے دل سے کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کچھ ایسے افراد ضرور ہیں جو خود کو سلفی دعوت کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کے باوجود ان کی زبان سے صراحتاً اور کبھی اشارۃً مذاہب کے بارے میں غلط کلمات نکل جاتے ہیں مگر یہ جائز نہیں ہے کیونکہ ائمہ کرام ـ رحمہم اللہ اپنے صحیح اور غلط دونوں اجتہادی اقوال میں اجر کے مستحق ہوں گے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ((إذا حکم الحاکم، فاجتہد فأصاب فلہ أجر، وإن أخطأ فلہ أجر واحد۔)) حاکم جب اجتہاد کرتا ہے تو اگر درست ہوگیا تو دو اجر ہے اور اگر خطا ہوگیا تو ایک اجر ہے۔ اسی طرح ان ائمہ کرام کے بارے میں ہمارا یقین و اذعان ہے کہ وہ اللہ کے یہاں ہر حال میں ماجور ہوں گے۔ اسی لیے ہمارے لیے غیر مناسب بات ہے کہ ہم ان کے حق میں کوئی غلط کلمات کہیں یا ان پر طعن کریں۔
|