کلام کو اب نہیں لیتے ہیں میں نے کہا: کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ امام شافعی کے بعد بہت سے ائمہ آگئے ہیں جنہوں نے ان کے اقوال کو پڑھا۔ اس میں راجح و مرجوح اقوال کو دیکھا تو ہم ان کے راجح قول کو لیتے ہیں اور وہ راجح قول جس کو ان ائمہ نے راجح قرار دیا ہو۔[1] پھر ہم نے اس سے کہا کہ گویا کہ امام شافعی کے کلام میں راجح و مرجوح ہے اور خطا و صواب بھی ہے۔ متاخرین نے بعد میں آکر چھان بین کرکے اس کے صواب کو اس کی خطا سے الگ کردیا۔ یہ سن کر وہ اچانک پریشان ہوگیا اور موضوع کو بدل دیا اور کہنے لگا ہم شافعی نہیں ہیں۔ بلکہ ہم باجوری ہیں۔ یہی حال موجودہ دور کے سارے مقلدین کا ہے۔ نہ کوئی حنفی ابوحنیفہ کی تقلید کرتا ہے، نہ ہی کوئی شوافع شافعی کی تقلید کرتا ہے۔ اب جبکہ کسی نہ کسی امام کا ہونا ضروری ہے تاکہ اس کی باتوں پر عمل کیا جائے تو ہمارے امام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو لیتے ہیں اور انھیں پر عمل کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ائمہ کرام کے اقوال کی قدر نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہم ان ائمہ کرام کی شخصی طور پر اتباع نہیں کرتے ہیں بلکہ شخصی طور پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات ثابت ہوجائے تو اس کو ہر حال میں قبول کرنا ہے اس سے اعراض کرنا جائز نہیں۔ لیکن جب کوئی امام بات کہتا ہے تو ہم اس سے دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس قول کے ثبوت میں کتاب و سنت سے کوئی دلیل پیش کرے اور یاد رکھئے کہ ہم ان لوگوں کے طریقے پر نہیں ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ’’جس نے اپنے شیخ سے کہا کیوں؟ تو وہ کبھی
|