Maktaba Wahhabi

117 - 264
کے تمام معانی سے جاہل ہوگئے اور کہہ دیا: ’’اللّٰه اعلم بمرادہ۔‘‘ ’’یعنی اللہ تعالیٰ اس کی مراد کو اچھی طرح جانتا ہے۔‘‘ اب جنہوں نے ’’استویٰ‘‘ کی تعریف ’’استولیٰ‘‘ سے کی ہے کاش کہ وہ لوگ خاموش رہتے اور کچھ نہ بولتے اور اس کو تفویض کردیتے۔ اس لیے کہ یہی وہ ہے جس سے انہوں نے راہ فرار اختیار کیا تو انہوں نے کس سے راہِ فرار اختیار کی؟ جب امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: ’’الإستوائ‘‘ معلوم ہے اور وہ استعلاء ہے یعنی ’’استوائ‘‘ استعلاء کے معنی میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ استعلاء کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ جہت علو میں ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم جہت کو مانتے ہی نہیں ہیں لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے لیے علو ہے تو اب{اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی}کا معنی کیا ہوگا۔ انہوں نے جواب دیا: سبحان اللہ لفظ ’’استولیٰ‘‘ عربی زبان میں اس بات کا مقتضی ہے کہ یہاں اللہ اور اس کے غیر کے درمیان مغالبہ (ایک دوسرے پر غلبہ) کا معنی پایا جائے اور یہ ’’غیر‘‘ مخلوق کے علاوہ کون ہوسکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر غالب ہوگیا۔ مگر یہ بات کون کہے گا؟ (جب انہوں [1]
Flag Counter