Maktaba Wahhabi

57 - 236
یہ لشکر اہل حدیث تھا اور موجودہ تفریق سے بے خبر، ان کا مسلک تقریباً وہی تھا جو آج کل اہلحدیث کا ہے۔ یعنی بلا تخصیص شخص مسائل اہل علم سے پوچھتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ اسی لئے عامۃ المسلمین میں اس وقت تعصب ناپید تھا۔ دوسرا حملہ ایران کی راہ سے ہوا۔ یہ فاتح عموماً حنفی تھے انہی کی وجہ سے ہندوستان میں حنفیت پورے زور سے پہنچی اور اس وقت تک احناف کی ملک میں کثرت ہے اور عوام وخواص میں عصبیت بھی ہے۔ إلا من رحم یہ علاقے مرکز سے کافی دور اور علوم کی برکات سے بے حد تشنہ رہے۔ یہاں کے علماء عموماً حجاز میں اقامت اور ہجرت کو ترجیح دیتے رہے۔ ان حالات میں اگر یہاں جمود ہو۔ تحقیق اور اجتہاد سے عوام نفرت کریں تو اس میں تعجب نہیں۔ جمود کی روش ایسے علاقوں میں مستبعد نہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر برصغیر ہندوستان وپاکستان کے حالات عرب سے کہیں ابتر ہونے چاہئیں۔ اس کا تذکرۃ حافظ ذہبی نے فرمایا ہے۔ یہاں کی حکومت اکثر جاہل اس کے ساتھ حکام میں بے عملی اور بد عملی دونوں کار فرما تھیں۔ علماء اور فقراء بھی اپنے مقام سے ہٹ چکے تھے۔ علامہ صنعانی (650ھ) کے بعد یہاں چند گنے چنے بزرگ نظر آتے ہیں۔ شیخ علی المتقی (975ھ) شیخ محمد طاہر پٹنوی شہید (986ھ) اور سب سے آخر میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی (1052ھ) جہاں اکبر ایسے فاسق بادشاہ اور ملا مبارک کا خاندان ملک کے در وبسط پر محیط ہوں۔ فواحش اور فسق وفجور کی حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی ہو۔ وہاں تقلید وجمود سے آگے ذہن کہاں تک پرواز کر سکتے ہیں اور یہ چند مخلص بزرگ بدعت اور شرک کے ان جھکڑوں اور آندھیوں کا کہاں تک مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس آخری دور میں شیخ عبد الحق (1052ھ) کا وجود غنیمت ہے۔ وہ اپنے وقت کے محدث ہیں۔ ان کے وجود سے دہلی اور دہلی کے اطرف میں حدیث کا چرچا ہوا۔ ان کی رجال پر نظر ہے۔ لیکن نقل روایت میں حافظ سیوطی کے بعد شاید ہی کوئی اس قدر غیر محتاط ہو۔ ان کی مدارج النبوۃ میں سیرت کے متعلق بڑی جامعیت ہے۔ لیکن اضعاف اور موضوعات کا ذخیرہ بھی حضرت شیخ نے جمع فرما دیا ہے۔ پھر وہ تصوف کی مخترعات اور وقت کی دوسری بدعات کے خلاف کھل کر کچھ کہنا نہیں چاہتے، بلکہ ان رجحان حمایت کی طرف ہوتا ہے۔ وہ سطحیات کے دلدادہ ہیں۔
Flag Counter