Maktaba Wahhabi

51 - 236
سے تعبیر فرماتے ہیں۔ 4. اسی طرح اگر مدعی کے پاس دو گواہ نہ ہوں تو مدعی خود قسم کھائے اور ایک گواہ دے دے تو امام شافعی اجازت دیتے ہیں کہ قاضی اس صورت میں مدعی کو ڈگری دے دے۔ ائمہ حنفیہ کا خیال ہے کہ یہ امام شافعی کی ’’جہالت‘‘ ہے۔ مسائل میں اختلاف ہو سکتا ہے اور مجتدین کو حق پہنچتا ہے کہ اپنی تحقیق کے مطابق فتویٰ دیں۔ اَتباع کو حق ہے کہ اپنے امام کی رائے کے مطابق عمل کریں۔ مگر تلخ اور ترش زبان تو بے حد مناسب ہے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے متعلق بھی ایسی زبان اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ چہ جائیکہ ائمہ اجتہاد کے متعلق یہ لب ولہجہ اختیار کیا جائے۔ پھر بھی بے ادب غیر مقلد ٹھہریں۔ کیا یہ تقلیدی جمود اور اس میں غلو کا نتیجہ نہیں؟ کشف الاسرار میں علامہ شیخ عبد العزیز (481ھ) نے متن کی شرح فرماتے ہوئے ائمہ کے اسماء کا تذکرہ فرمایا ہے جن کے اجتہادات کو علامہ بزدوی نے جہالت سے تعبیر فرمایا ہے۔ لیکن اس تیز لب ولہجہ کے متعلق ایک حرف بھی نہیں فرمایا۔ حسامی نے تھوڑے اختصار کے ساتھ اصول بزدوی کے الفاظ نقل فرما دئیے ہیں۔ اور وہی امثلہ جو بزدوی نے بیان فرمائی ہیں بطور توارث نقل کر دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں پر رحم فرمائے۔ یہ دور جمود کی بڑی تلخ اور ناپسندیدہ یادگار ہے اور بعض بزرگوں کے ساتھ محبت میں غلو کا نتیجہ۔ حسامی کے شارح عبد الحق حقانی رحمہ اللہ نے نامی میں دو لفظ فرمائے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں یہ زبان اور انداز پسند نہیں۔ فرماتے ہیں: وكل واحد يجهل الآخر فيما خالفه ويقول إنه مخالف للسنة (نامی مجتبائی ص120) ہر ایک اپنے مخالف کو جاہل اور  سنت کے مخالف کہتا ہے۔ المنار میں ماتن نے صرف امہات اولاد کا ذکر کیا ہے۔ لیکن شارح ملّا جیون نے امثلہ میں پوری تفصیل کی ہے۔ امام شافعی اور امام داؤد ظاہری کا نام صراحۃً لیا ہے اور آخر میں فرماتے ہیں: وقد نقلنا كل هذا على نحو ما قال أسالفنا وإن كنا لم نجتر عليه. اھ. (نور الانوار ص298) ہم نے یہ سب کچھ اس لئے نقل کیا ہے کہ ہمارے پہلے بزرگوں نے ایسا ہی فرمایا ہے ورنہ ہم یہ جرات نہ کرتے۔
Flag Counter