Maktaba Wahhabi

219 - 236
تقی الدین احمد بن علی مقریزی (845ھ) نے فرمایا۔ جب ملک ظاہر بیبربند قداری نے 662ھ میں مدرسہ ظاہریہ کی بنیاد رکھی اور اس کے مصارف کے لئے بہت بڑا وقف کیا۔ اس میں مختلف مکاتب فکر کی تدریس کے لئے مختلف ایوان بنائے بنائے جس کی تفصیل اس طرح ہے۔ وجلس أهل الدروس كل طائفة في إيوان منها الشافعية بالإيوان اقلبلي ومدرسهم تقي الدين محمد بن حسن بن رزين الحموي والحنفية بالإيوان البحري مدرسهم الصدر مجد الدين عبد الرحمن بن الصاحب كمال الدين عمر بن العديم الحلبي وأهل الحديث بالإيوان الشرقي ومدرسهم الشيخ شرف الدين عبد المؤمن بن خلف الدمياطي. اھ (الخطط للمقریزی ج2 ص217) تمام علماء اپنے اپنے ایوان میں درس دینے لگے۔ شافعی سامنے کے ایوان میں تھے۔ ان کے صدر مدرس تقی الدین محمد بن حسن حموی تھے اور حنفی سمندری ایوان میں ان کے صدر مدرس عبد الرحمٰن بن العدیم حلبی تھے اور حدیث مشرقی ایوان میں درس دینے لگے ان کے صدر مدرس شیخ شرف الدین عبد المؤمن بن خلف دمیاطی تھے۔ 1ھ یہ ساتویں صدی ہے اس میں بھی شاہی مدرسہ میں دوسرے مکاتب کے مقابل اہل حدیث کے لئے مستقل ایوان ہے۔ مقریزی فرماتے ہیں کہ یہ مدرسہ اب بھی موجود ہے۔ کسی قدر فرسودہ ہوچکا ہے۔ حنفی اور شافعی اس کی نظامت سے متعلق دست وگریبان ہوتے رہتے ہیں۔ مقریزی اہل مصر کے مذاہب اور ارباب مذاہب کی تبدیلیوں اور اس کے اسباب کا ذکر فرماتے ہیں: وكانت أفريقة الغالب عليها السنن والآثار إلى أن قدم عبد الله بن فروج أبو محمد الفارسي بمذهب أبي حنيفة. اھ (الخطط ج1 ص144) افریقہ میں ابتداء میں سب لوگ سنن وآثار (مسلک اہل حدیث) کے پابند تھے۔ یہاں تک شیخ عبد اللہ بن فروج حضرت امام ابو حنیفہ کا مسلک لے کر آگئے۔ اھ مقریزی افریقہ میں مالکی مذہب کی اشاعت کے متعلق فرماتے ہیں:
Flag Counter