Maktaba Wahhabi

172 - 236
کر کے اسے امتحآن میں ڈالا گیا ہے۔ اگر تقلید میں جمود نہ ہوتا تو یقیناً یہ بے انصافی کبھی گوارا نہ کی جاتی۔ جناب نے جو آثار اپنے مذہب کی حمایت میں پیش فرمائے ہیں وہ اس اصول کے خلاف ہیں جس کی راہنمائی قرآنِ عزیز نے فرمائی ہے۔ پھر اس نوّے سال کی تحدید کے لئے کوئی مرفوع صحیح روایت بھی سنت کے دفتروں میں موجود نہیں صرف اکابر کی آراء ہیں۔ الحیلة الناجزہ میں مولانا تھانوی رحمہ اللہ اور ان کے رفقاء نے بڑا کرم فرمایا کہ پرانے جمود کو توڑ کر شوافع، موالک اور حنابلہ کی فقہیات سے بعض جزئیات کو قبول فرما لیا ہے۔ حالانکہ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ سخت قسم کے جامد تھے۔ اللہ نے ان سے یہ کام لیا۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء۔ اتباع سنت اور ترک تقلید کی دعوت کا اس سے زیادہ کوئی مطلب نہیں کہ یہ جمود ترک کر دیا جائے اور انسانی مصالح کو تقلیدی مصالح پر مقدم رکھا جائے۔ الحیلۃ الناجزہ میں ان فتققں کے حاصل کرنے میں جو طریق اختیار فرمایا گیا، یعنی قرآن اور سنت کی نصوص کے مفہوم کو جسے مولانا تھانوی رحمہ اللہ اور ان کے رفقاء کار خود بھی صحیح سمجھتے تھے اسے شوافع اور موالک کی تصدیق سے قبول کیا گیا ہے۔ یہ جمود کی ناپسندیدہ مثال ہے۔ ہم نے بھی درس نظامی مشہور اساتذہ سے پڑھا ہے۔ قرآن و حدیث اتنا مشکل نہیں جس قدر آپ حضرات اسے سمجھ رہے ہیں۔ اس لئے مسائل کے اظہار میں حیل کو چھوڑئیے اور آئمہ اربعہ کے ساتھ مساوی محبت رکھیئے۔ متاخرین فقہاء نے مفقود کے مسئلہ میں اپنی رائے بدل لی۔ متقدمین احناف نے قرآن، حدیث، فقہ کی تعلیم پت اجرت کے متعلق بھی اجازت مرحمت فرمائی۔ ہر زمانہ میں ضرورۃً ایسی تبدیلیاں ہوتی رہیں آج معلوم نہیں یہ جمود کیوں ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ الحیلہ الناجزہ میں دوسرے مذاہب سے استفادہ فرمایا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر مقلد بننے کے لئے کتنے مسائل میں تحقیق اور دوسرے مذاہب سے استفادہ ضروری ہے۔ اگر مولانا کا یہ ارشاد درست ہے کہ فقہاء نے فقہی مسائل اور نئے اجتہادیات کا پوری دیانت داری سے فائزہ لیا تو یقیناً آئمہ حدیث اور فقہاء محدثین نے بھی فقہ الحدیث کا استنباط پوری دیانت داری سے کیا ہے۔ لہٰذا ان سے متعلق بھی زبان درازی
Flag Counter