Maktaba Wahhabi

136 - 236
ان لوگوں نے حضرت اُمِ سلیم والدہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور دوسرے اہلِ علم سے دریافت کیا۔ صحیح بخاری کے الفاظ اس طرح ہیں: فكان فيمن سألوا أم سليم جن اہل علم سے دریافت کیا گیا ان میں حضرت امِ سلیم بھی تھیں۔ ام سلیم نے حضرت صفیہ کی حدیث کا حوالہ دیا کہ آنحضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کو بلا طواف وداع واپسی کی اجازت مرحمت فرما دی تھی۔ بعض روایات میں اسے حضرت ابن عباس اور زید بن ثابت کی نزاع ذکر فرمایا جس میں زید بن ثابت نے حضرت ابن عباس کو اپنے رجوع کی اطلاع دی۔ تعجب ہے ایک دار العلوم کے صدر مدرس اسے تقلید شخصی کی دلیل سمجھیں۔ حالانکہ یہ تحقیق کا ایک شاہکار ہے۔ اختلاف سے پہلے وہ لوگ زید کے فتوے پر مطمئن تھے۔ اپنی معلومات پر اصرار اور اعتماد قدرتی بات ہے۔ لیکن یہ اصرار مقلدانہ نہ تھا بلکہ وہ تحقیق کے لئے آمادہ ہوئے۔ حضرت اُمِ سلیم اور دیگر فقہاء صحابہ سے ان حضرات نے تحقیق کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ، ام سلیم رضی اللہ عنہ ، صفیہ رضی اللہ عنہ ، ابن عمر رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ایسے فقہاء حدیث کے فتوں سے اس میں تحقیقی استفادہ کیا گیا۔ اپنے علم پر اعتماد کا نام مولانا تقلید رکھتے ہیں۔ اگر وہ حضرات مقلد ہوتے تو اپنے امام کے سوا کسی کی بات نہ سنتے۔ وہ تو پختہ کار محقق ٹھہرے۔ شبہ ہوتے ہی تحقیق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ کئی مجتہدین کے آثار کی تلاش کی۔ بالآخر زید کا قول غلط نکلا۔ تمام حضرات نے حضرت عباس کا فتویٰ قبول فرمایا۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خود اپنے رجوع کی اطلاع حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو دی۔ آپ اسی مقام سے عمدۃ القاری بھی ملاحظہ فرمائیے۔ وہاں حافظ ابن حجر کی عبارات کے توارد کے بعد مزید بعض چیزیں لکھیں ہیں جس سے مسئلہ کے فہم میں سہولت ہوتی ہے۔ حافظ عینی کو وہ دور کی بات نہیں سوجھی جو ہمارے دار العلوم کے صدر صاحب کو سوجھی۔ پھر یہاں تلاش اور ٹٹول کسی رائے کی نہیں تاکہ تقلید کی جائے بلکہ یہ تمام مجتہدین نص کی تلاش فرما رہے ہیں۔ چنانچہ عینی، ثقفی کے حوالہ سے ذکر فرماتے ہیں: فرجعوا إلى ابن عباس قالوا وجدنا الحديث كما حدثتنا (عمدۃ القاری ص777 ج2) حدیث واقعی اسی طرح ہے جس طرح آب نے فرمایا۔ اس وقت کے مجتہد خود اس تحقیق میں مشغول ہوگئے اور اس کے نتیجہ کی اطلاع مسکراتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو دی۔
Flag Counter