قلمرو کی حفاظت کریں۔ اور کچھ قرآن وسنت میں تفقہ اور ضبط کے لئے اوقات عزیز وقف کریں۔ جنگ سے واپسی پر عسکری حضرات بھی اپنی وسعت اور استعداد کے مطابق ان علوم سے استفادہ کریں۔ آپ ان تذکیر اور تدریس کی مجلسوں کو تقلید کا عنوان دینا چاہتے ہیں تو اس اصطلاح کی وضع میں آپ مختار ہیں۔ حقیقتاً اس میں تقلید کا شائبہ بھی نہیں۔ کند ذہن اور ذہین آدمی اپنی استعداد کے مطابق اس سے استفادہ کر سکتا ہے۔ جصاص فرماتے ہیں: وفي هذه الآية دلالة على وجوب طلب العلم وأنه مع ذلك فرض على الكفاية لما تضمنت من الأمر بنفر الطائفة(ج3 ص198) اس آیت سے طلب علم کی فرضیت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ فرض کفایہ ہے۔ علامہ جصاص کی نظر میں بھی اس سے تقلید ثابت نہیں ہوتی۔ پھر کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ پورا طائفہ مجتہد ہو۔ اس لئے کہ کوئی سمجھدار آدمی اس سے مصطلح تقلید نہیں سمجھ سکتا۔ 3. واتبع سبيل من أناب إلي سے تقلید عام یا تقلید مطلق کا اثبات سینہ زوری اور علمی طغیانی کے سوا کچھ نہیں۔ بے شک منکے مفہوم میں عموم ہے۔ لیکن صلہ میں انابت الی اللہ موجب اتباع سمجھا گیا ہے۔ جس کے مصطلح اجتہاد کو بڑی بات عرفی علوم کا جاننا بھی ضروری معلوم نہیں ہوتا۔ پھر جناب اسے تقلید مروج کے لئے مفید سمجھتے ہیں: عليكم بالفقه والدولية والإنابة إلى الله، والابتهال إليه مثل هذه المسائل التي قد انشقت بسببها عصا الأمة المرحومو وصاروا أشتاتا 4. اقتدوا بالذين بعدي أبي بكر وعمر (خذيفة) اس حدیث سے تقلید عام پر استدلال نرا ہی تکلف ہے۔ اگر مفت میں اجتہاد کی جرات فرما کر حضرت اقتداء کے معنی تقلید مصطلح فرما سکتے ہیں تو اسی سے تقلید شخصی ثابت فرمائیں۔ پھر دو ائمہ اجتہاد کا نام تو صراحتاً موجود ہے۔ اگر اس قدر جرات نہیں تو یہ تکلّف بھی چھوڑئیے۔ آپ ایسے اکابر رجال سے استدلال مذاق سا معلوم ہوتا ہے۔ یہ آپ کا ارشاد درست ہے یہاں اقتداء سے مراد صرف انتظامی امور نہیں بلکہ انتظامی اور دینی دونوں مراد ہیں: اقتَدَىٰ بفلان تسنّن به وفعل فعله یعنی اطوار اور عادات اور افعال میں بلا تقلید اتباع اور تتبع پر لفظ بولا جاتا ہے جس طرح مقتدی افعال نماز میں امام کا اتباع بھی کرتا ہے۔ لیکن اگر امام طے شدہ راہ سے انحراف کرے تو اسے تسبیح اور تصفیق سے ٹوک بھی سکتا ہے۔ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |