Maktaba Wahhabi

188 - 325
لیتے تھے تو ایسا ہی وہ آپ کی وفات کے بعد بھی کرتے۔حالانکہ وہ آپ کی زندگی میں آپ کی دعا کا وسیلہ لیتے تھے ‘آپ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اور پھر آپ کی دعا پر سب مل کر آمین کہتے تھے ‘جیسے کہ استسقاء وغیرہ میں ان کا معمول تھا۔لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور لوگ استسقاء کیلئے نکلے تو حضرت عمر رضی اﷲعنہ نے فرمایا ’’اے اﷲ‘جب ہم قحط سالی کا شکار ہوتے تھے تو ہم تیری بارگاہ میں تیرے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کو وسیلہ بناتے تھے،اور تو ہمیں سیراب کرتا تھا ‘اب ہم تیرے نبی کے چچا کا وسیلہ لیتے ہیں۔‘‘یعنی تیرے نبی کی زندگی میں ان کی دعا وسیلہ ہوتی تھی اور اب ان کی وفات کے بعد ان کے چچا کی دعا ہمارے لئے وسیلہ ہے۔یہ ہرگز نہیں کہتے تھے۔کہ ہم تجھ پر تیرے نبی کی یا تیرے نبی کے چچا کی قسم کھاتے ہیں ‘یا ان کے جاہ وحق کے واسطے سے دعا کرتے ہیں۔اگر ایسا ہوتا تو پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کو وسیلہ بنانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ آپ کے چچا سے بہرحال بلندتھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس طرح دعا مانگی۔’’اے اﷲ!میرے باپ دادا کا جو تجھ پرحق ہے اس کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔‘‘اﷲنے حضرت داؤد علیہ السلام سے وحی کے ذریعہ پوچھا ’’داؤد تیرے باپ دادا کامجھ پر کیا حق ہے؟‘‘ شیخ ابوالحسن القدوری کابیان ہے کہ غیر اﷲکے نام سے سوال کرنا حرام
Flag Counter