Maktaba Wahhabi

282 - 325
اگر یہ ممکن ہوتا تو سب سے زیادہ اہم ونازک وقت آپ کی ملاقات کا وہ تھا جب آپ کی وفات کے بعد حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سخت خونریز جنگ چھڑ گئی تھی جس کے سبب ہزاروں صحابہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ حق کس فریق کے ساتھ ہے؟یہ کتنے تعجب کی بات ہوگی کہ اپنی وفات کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیہاتی سے تو کلام فرمائیں ‘لیکن جب آپ کی امت پر اختلاف وخونریزی کا سیلاب امد پڑا ہو اس وقت خاموش رہ جائیں۔ کیا یہ باتیں اس امر کی واضح علامت نہیں ہیں کہ سرے سے یہ سارا قصہ ہی غلط اور من گھڑت ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ سند حدیث پر بحث: یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے بھی ناقابل اعتماد وحجت ہے ‘کیونکہ اس روایت کا اصل راوی العتبی جو اس قصہ کو دیہاتی سے روایت کرتا ہے ‘اس دیہاتی اور عتبی کے درمیان دوسوبرس کا فاصلہ ہے۔دیہاتی کا یہ قصہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی وفات کے تیسرے دن بعد کا ہے اور عتبی کی وفات ۲۲۸ھ میں ہوتی ہے۔راوی اور صاحب واقعہ کے درمیان دوصدیوں کا فاصلہ ہے۔کون عقل اس کو باور کرسکتی ہے کہ راوی اور صاحب واقعہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ہوگا؟العتبی کے حالات اور سنہ وفات کو تمام مشہور مورخین نے بصراحت لکھا ہے۔
Flag Counter