ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو تو کبھی علی رضی اللہ عنہ کو بھیجتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں یمن کی طرف بھیجتے تھے تو یہ لوگ وہاں کیا کرتے تھے؟ ظاہر بات ہے کہ یہ لوگ پہلے انھیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دیتے تھے یہی توحید کی دعوت ہے اور یہی ہر عقیدہ کی اصل ہے۔ پھر انھیں اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ سب سے پہلے تم انھیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ لوگ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں جب وہ اس میں تمہاری بات مان لیں تو تم انھیں نماز کا حکم دو… الحدیث۔[1]
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا اور وہ ایک فرد تھے۔ اب ان کی حدیث متاخرین کی اصطلاح میں ’’حدیث آحاد‘‘ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا تھا کہ سب سے پہلے انھیں عقیدۂ توحید کی دعوت دیں، یعنی اللہ پر ایمان ویقین کی جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، حدیث کا لفظ یہ ہے: ((فلیکن اول ما تدعوہم الیہ شہادۃ ألا إلہ إلا اللّٰہ۔))اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے پھر جب آپ تمام مسلمانوں، سلف صالحین کے پیروکاروں اور ان کے مخالفین کے درمیان موازنہ کریں گے تو دیکھیں گے کہ خواہ موافقین ہوں یا مخالفین وہ سب اس بات کو سمجھتے ہیں اور ان سب کا اس بات پر یقین بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ ہی کو یمن کی طرف بھیجا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس بات کا حکم دیا تھا کہ وہ وہاں کے لوگوں کو عقیدہ توحید کی دعوت دیں یعنی وہ لوگ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اب آپ دیکھیں کہ اس حدیث کی صحت پر کس قدر ان کا یقین ہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ کہتے ہیں کہ
|