دینے میں صرف کرتے ہیں، جسے وہ اس مشہور ومعروف عبادت سے تعبیر کرتے ہیں کہ: ((الحاکمیۃ للّٰہ)) ’’حاکمیت کا حق صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔‘‘ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے کہ اس میں اور نہ کسی اور چیز میں اس کا کوئی شریک ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی مذاہب اربعہ میں سے کسی مذہب کا مقلد ہوتا ہے اور جب اس کے پاس کوئی بالکل صریح وصحیح سنت آتی ہے تو کہتا ہے یہ میرے مذہب کے خلاف ہے تو کہاں گیا اللہ تعالیٰ کا حکم اتباع سنت کے بارے میں؟
ان میں سے آپ کسی کو پائیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت صوفیوں کی طریقت پر کر رہا ہوگا تو کہاں گیا اللہ تعالیٰ کا حکم توحید کے بارے میں؟ تو وہ دوسروں سے وہ مطالبہ کرتے ہیں جو اپنے آپ سے نہیں کرتے، یہ تو بہت آسان کام ہے کہ اپنے عقیدے، عبادت، سلوک اور اپنے گھر، بچوں کو تربیت، خریدو فروخت میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق حکم کرو جبکہ اس کے برعکس یہ بہت مشکل اور کٹھن ہے کہ تم کسی حاکم کو جبراً کہو یا ایسے حاکم کو معزول کرو کہ جو اپنے بہت سے احکامات میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ آسان کو چھوڑ کر مشکل راہ کو اپنایا جا رہا ہے؟
یہ دو میں سے ایک بات کی طرف اشارہ کناں ہے یا تو یہ بری تربیت و بری توجیہ کا نتیجہ ہے یا پھر ان کا وہ برا عقیدہ ہے جس نے انہیں اس بات سے روک کر اور پھیر کر جس کو اپنانا ان کی استطاعت میں ہے اس بات کی طرف مائل کر دیا ہے جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے۔ آج کے اس دور میں میں تمام تر مشغولیت کا محور تصفیہ و تربیہ کے عمل کو بنا دینے اور صحیح عقیدے و عبادت کی جانب دعوت دینے کے سوا اور کوئی نظریہ نہیں رکھتا۔ ہر کوئی یہ کام اپنی استطاعت بھر انجام دے، اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔
اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آل پر۔
|