Maktaba Wahhabi

33 - 264
ہے: امت کے معاملات کا انتظام کرنا انہیں چلانا، پس امت کے معاملات کون چلاتا ہے؟ نہ زید، نہ بکر، نہ عمرو اور نہ ہی وہ جو کسی پارٹی کی بنیاد رکھے یا کسی تحریک کی سربراہی کرتا ہو یا کسی جماعت کو چلاتا ہو۔ یہ معاملہ تو خاص ولی امر (حکمران) سے تعلق رکھتا ہے، جس کی مسلمانوں نے بیعت کی ہے۔ یہی ہے وہ جس پر واجب ہے کہ وہ موجودہ سیاسی حالات اور ان سے نمٹنے کی معرفت حاصل کرے لیکن اگر مسلمان متحد نہ ہوں جیسا کہ ہماری موجودہ حالت ہے تو ہر حاکم اپنی سلطنت کی حدود میں ذمہ دار ہے لیکن اگر ہم اپنے آپ کو ان امور میں مسغول رکھیں جن کے بارے میں بالفرض ہم مان بھی لیں کہ ہمیں اس کی کما حقہ معرفت حاصل کہوگئی ہے تب بھی ہمیں یہ معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی، کیونکہ ہمارے لیے اسے نافذ کرنے کا امکان ہی نہیں کیونکہ ہم امت کے امور چلانے کے بارے میں فیصلوں کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ تو محض یہ معرفت بیکار ہے جس کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔ میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں وہ جنگیں جو مسلمانوں کے خلاف بہت سے اسلامی ممالک میں بپاہیں، کیا اس بات کا کوئی فائدہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے جذبات ابھاریں اور انہیں اس جانب برانگیختہ کریں جبکہ ہم اس جہاد کا کوئی اختیار ہی نہیں رکھتے جس کا انتظام ایک ایسے مسول امام کے ذمہ ہے جس کی بیعت ہو چکی ہو؟ اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ واجب نہیں۔ لیکن ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کام اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہے۔ اسی لیے ہم پر واجب ہے کہ ہم آپ کو اور دوسروں کو جنہیں ہم اپنی دعوت پہنچا رہے ہیں اس بات میں مشغول رکھیں کہ وہ صحیح اسلام کا فہم حاصل کرکے اس پر صحیح تربیت حاصل کریں لیکن اگر ہم محض انہیں جذباتی اور ولولہ انگیز باتوں میں مشغول رکھیں گے تو یہ انہیں اس بات سے پھیر دیں گی کہ وہ اس دعوت کے فہم میں مضبوطی حاصل کر پائے جو ہر مکلف مسلمان پر واجب ہے جیسے عقائد، عبادت اور سلوک کی تصحیح یہ ان فرائض عیینہ میں سے ہے جس میں تقصیر کا عذر قابل قبول نہیں جبکہ جو دوسرے امور ہیں ان میں سے تو بعض فرض کفایہ ہیں جیسا کہ آج کل جو کہا جاتا ہے ’’فقہ الواقع‘‘ (حالات حاضرہ کا علم) اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا جو کہ ان لوگوں کی
Flag Counter