مسلمان ہونے کے ناطے سے آج ہمیں بہت سے ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کا سامنا اولین مسلمانوں کو نہیں کرنا پڑا تھا کیونکہ ہمارے یہاں مختلف ناموں کے تحت صحیح عقیدے اور منہج حق سے منحرف اہل بدعت کے اشکالات اور شبہات کے سبب عقیدے کا بہت بگاڑ موجود ہے۔ ان مختلف ناموں یا دعوتوں میں سے یہ بھی ہے کہ ہم صرف کتاب وسنت کی طرف دعوت دیتے ہیں، جیسا کہ علم الکلام کی جانب منسوب لوگ یہ زعم رکھتے اور دعویٰ کرتے ہیں۔
ہمارے لیے یہاں بہتر رہے گا کہ ہم اس بارے میں آئی کچھ صحیح احادیث ذکر کریں، جن میں سے یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان احادیث میں سے بعض میں غرباء (معاشرے میں اجنبی لوگوں) کا ذکر فرمایا، تو یہ فرمایا: ((للواحد منہم خمسون من الاجر‘‘ ، قالوا: منا یا رسول اللّٰہ او منہم؟ قال: ’’منکم‘‘…))[1]’’ان میں سے ایک شخص کا ثواب پچاس کے ثواب کے برابر ہوگا۔ صحابہ رضی اللہ عنهم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پچاس ان میں سے یا ہم میں سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے۔‘‘
لہٰذا یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اس شدید غربت (اجنبیت) کا جو دور اول میں نہ تھی، بلا شبہ دور اول میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمان صداق کے درمیان تھی جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سے اٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیر اللہ کے لیے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اولاً اس مسئلے پر متنبہ ہونا ضروری ہے، ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کر دوسرے مرحلے میں منتقل ہو جائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ! کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوت حق ہے، جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں ہم عرب ہیں اور قرآن مجید ہماری زبان میں نازل
|