رحمہ اللہ سے منقول تفسیر کی کتابیں لکھیں اور انھیں سے ثابت حدیث کی کتابیں بھی لکھیں اور یہی اعتماد کے قابل بھی ہیں۔ حتی کہ آپ نے خلیفۂ وقت متوکل کے پاس خط میں کہا: میں کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور تابعین عظام میں جو کچھ ہے اس کے بارے میں بات کرنا پسند کرتا ہوں اس کے علاوہ نہیں۔ آپ کے باب میں سنت پر اعتماد کیا۔ اسی طرح صحابہ کرام اور تابعین عظام کے اقوال پر بھی اعتماد کیا۔ اسی طرح آپ نے طالب علموں کے بارے میں کہا کہ: وہ باتیں ضبط تحریر میں لائیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، صحابہ کرام اور تابعین سے منقول ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ تبع تابعین کے بارے میں تمہیں اختیار ہے۔[1]
اس میں کوئی شک نہیں کہ سلف صالحین کے اقوال کی معرفت متاخرین کے اقوال کی معرفت سے زیادہ نفع بخش ہے۔[2]
آپ جب غور کریں گے تو محسوس کریں گے کہ امت محمدیہ کا ہر فرقہ اپنے بارے میں یہی خیال کرتا ہے کہ وہ کتاب و سنت پر قائم ہے، لیکن ان ٹولیوں میں دیکھا جائے گا کہ کون سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام کے منہج پر ثابت قدم ہے۔ اس لیے کہ یہی ناجی فرقہ ہے اور یہی مومنوں کا راستہ ہے۔
امام شافعی نے ’’الرسالۃ القدیمہ‘‘ میں صحابہ کرام کا ذکر کرنے کے بعد کہا ہے اور وہ لوگ علم میں ہم سے بلند ہیں۔ اسی طرح اجتہاد، ورع، اور عقل میں بھی ہم سے بہت بلند ہیں۔ ان کے اقوال و آرائ، ہمارے اقوال و آراء سے بہت عمدہ ہیں ۔ واللہ اعلم[3]
امام اوزاعی نے کہا: صحابہ کرام سے جو کچھ ثابت ہے وہ علم ہے اس کے علاوہ علم نہیں ہے۔[4]
|