حجت تمام کرنا واجب ہے۔ ان کا معاملے مشرکوں سے اس طور پر الگ ہے کہ وہ ’’لا الٰہ الا اللّٰه ‘‘ کہنے سے ہی انکاری ہے تو وہ مسلمان نہیں نہ ظاہراً نہ باطناً جبکہ مسلمانوں کی آج یہ بہت کثیر تعداد (جن میں عقائد کا بگاڑ پایا جاتا ہے ظاہراً) مسلمان ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((فإذا قالوہا عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إلا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ على اللَّهِ تعاليٰ)) [1] ’’اگر وہ اس کلمے کو پڑھ لیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال محفوظ کر لیں گے سوائے اسلامی اعتبار سے ان کی جان ومال لینے کا کوئی حق بنتا ہو اور ان کے باقی اعمال کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘
اسی لیے میں ایک بات کرتا ہوں اور اس قسم کی بات شاذ ونادر ہی مجھ سے صادر ہوتی ہے کہ: کلمے کے غلط فہم کے اعتبار سے موجودہ دور کے بہت سے مسلمانوں کی حالت جاہلیت کے دور کے عام عربوں سے بھی گئی گزری ہے، کیونکہ مشرکین عرب اس کا فہم تو رکھتے تھے مگر اس پر ایمان نہ لاتے تھے جبکہ آج مسلمانوں کی غالب اکثریت وہ بات کہتے ہیں (یعنی لا الٰہ الا اللٰه ) جس کا وہ اعتقاد نہیں رکھتے۔ کہتے تو ہیں ’’لا الہ الا اللّٰه ‘‘ مگر کما حقہ اس کے معنی پر ایمان نہیں رکھتے۔[2] اسی وجہ سے میرا یہی اعتقاد ہے کہ جو حقیقی داعیان اسلام ہیں ان پر واجب ہے کہ وہ اس کلمے ہی کے گرد اپنی دعوت کو قائم کریں اور سب سے پہلے اس کے حقیقی معنی اختصار سے بیان کریں پھر اس کلمہ طیبہ کے لوازم کا تفصیلی بیان کریں کہ عبادات میں اس کی تمام تر صورتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب مشرکین کا یہ قول ذکر فرمایا کہ:
{وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُہُمْ اِِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِِلَی
|