مسلمان سجدہ میں ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ کہتا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ نے بھی یہی جواب دیا تھا کہ لغت میں استواء کا معنی معلوم ہے۔ لیکن تم استواء کی کیفیت کے بارے میں سوال کرتے ہو کہ وہ کیسے مستوی ہے؟ تو یہ کیفیت مجہول ہے۔ اس کا علم کسی کو نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں وہی بات کہی جائے گی جو اس کی ذات کے بارے میں کہی جاتی ہے۔[1] مثلاً ہر مسلمان یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اللہ کا وجود ثابت ہے یعنی اللہ تعالیٰ موجود ہے لیکن وہ یہ نہیں بتاسکتا کہ اللہ کی ذات کیسے ہے اور کیسے موجود ہے تو جب اس کی ذات کی کیفیت کو نہیں بیان کیا جاسکتا تو اس کی صفات کی کیفیت کو کیسے بیان کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ کیف مجہول ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور تو نامعلوم چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے لہٰذا تو بھی بدعتی ہے، اسی لیے اس کو اپنی مجلس سے بھگادینے کا حکم دیا… اوپر کی تفصیلی بیانات سے معلوم ہوا کہ مذہب سلف یہ ہے کہ صفات کی آیات ہوں یا احادیث ان پر اسی طرح ایمان رکھنا ہے جس طرح وہ ثابت ہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا لغوی معنی معلوم ہے اور بس۔ نہ تو اس کی تاویل کی جائے گی اور نہ ہی اس کی تشبیہ بیان کی جائے گی اور نہ ہی ان کی نفی کی جائے گی۔ اس لیے کہ
|