Maktaba Wahhabi

41 - 335
منطق کے پرچے کا ایک سوال: ’’ضرب وقرینہ کسے کہتے ہیں ؟‘‘ ۲۔ تمام پرچے ممتحن موصوف خود جانچتے اور خود ہی حَکَم بھی ہوتے۔ ۳۔ امتحان کے نتائج سنانے کے لیے ممتحن صاحب امتحان ہال میں تمام اساتذہ و طلبا کی مجلس قائم کرتے، جس میں مہتمم صاحب انعامات کی رقم لے کر حاضرہوتے۔ پھر اسی مجلس میں ممتحن صاحب کی زیرِ صدارت تقریری مسابقے کا پروگرام چلتا، جس کے حَکَم بھی وہی ہوتے اور پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا کے ناموں کا اعلان فرماتے، اسی کے مطابق مہتمم صاحب انعامات کی رقم دیتے جاتے۔ یہ ہیں مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے تعلیمی، تربیتی اور امتحانی معیاروں کے مختصر ترین احوال و کوائف۔ اسی منفرد معیار کی وجہ سے مدرسہ مذکورہ کے ساختہ و پرداختہ فضلا کو یہ مقام حاصل تھا کہ علمی خدمات میں ممتاز اور سر بلند رہے، ان کی اہلیت و صلاحیت اور صالحیت مسلمہ حقیقت اور شک و شبہہ سے بالاتر تھی۔ رحمانی ہونا ایسی ڈگری تھی کہ اس کے اوپر کسی ڈگری کا تصور نہیں تھا۔ اس مدرسے کی مثالی خدمات اور رجال سازی کے اعلیٰ انتظامات پر شہادت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس زمانے کے قد آور اکابر علما مثلاً شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری، امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری وغیرہم رحمہم اللہ ، اس مدرسے کی زیارت کے لیے از خود تشریف لاتے رہے، جب کہ اس مدرسے نے کبھی کوئی جلسہ کرکے اپنی کارگزاریوں کی نمایش نہیں کی، کیونکہ ’’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘ افسوس کہ اس فقید المثال درس گاہ نے کل ۲۷؍ بہاریں دیکھیں ، پھر خزاں کے ایک ہی جھونکے نے چشم زدن میں اسے ویران کر دیا، نہ مہتمم و منتظم رہے، نہ اساتذہ و طلبا۔ یہ تھا آزادیِ ہند کا ثمرہ۔ ممکن ہے، اس کتاب میں مدرسے کے اَلم ناک انجام اور ناقابلِ تلافی نقصان پر بھی روشنی ڈالی گئی ہو۔
Flag Counter